Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 53
وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب آتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْفُرْقَانَ : جدا جدا کرنے والے احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : ہدایت پالو
اور (ہمارا احسان بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے موسیٰ کو وہ (عظیم الشان) کتاب (یعنی توراۃ) دی، اور (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کا سامان بھی، تاکہ تم لوگوں کو راستہ مل سکے3
149 بنی اسرائیل کیلئے عطائ تورات کی نعمت : یعنی کتاب سے یہاں پر مراد تورات ہے جو کہ اپنے دور میں حق و ہدایت کا منبع ومصدر، اور سرچشمہ فیض تھی، اور اپنے زمانے کیلئے وہ روشنی کا ایک مینار تھی، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا ۔ { فِیْہَا ہُدًی وَّ نُوْرٌ } ۔ سو تم کو تورات کی اس نعمت سے نوازا گیا، تاکہ تمہیں شریعت اور دستور حیات نصیب ہوسکے، اور اس طرح تم حق و ہدایت کی نعمت سے سرفراز ہوسکو، سو تم کو دوسری بیشمار اور عظیم الشان حسی اور ظاہری نعمتوں کے ساتھ ساتھ عطائ تورات کی عظیم الشان معنوی اور روحانی نعمت سے بھی نوازا گیا، مگر تم نے اس کی قدر نہ پہچانی جسکے نتیجے میں تم حرمان نصیبی کے حقدار بن کر رہ گئے۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل کفران و خسران ۔ سو کتاب ہدایت کی نعمت عظمیٰ پر شکر ادا کرنا بندے کے ذمے واجب ہے کہ یہ نعمتوں کی نعمت ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ 150 " الفرقان " کا معنیٰ و مفہوم اور اس سے مقصود و مراد ؟ : " فرقان " سے یہاں پر مراد یا تو تورات ہی ہے کہ اس کے احکام و ارشادات حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے تھے، اور اس صورت میں یہ عطف " عطف الصفۃ علی الموصوف " کے قبیل سے ہوگا۔ (صفوۃ وغیرہ) ۔ اور تورات کو " کتاب " اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے دور کے لحاظ سے احکام خداوندی کی جامع تھی۔ اور کتاب کے اصل معنی جمع ہی کے آتے ہیں۔ اور اس کو " فرقان " اس اعتبار سے فرمایا گیا کہ اس کے احکام و فرامین حق و باطل کے درمیان فرق وتمیز کرنے والے تھے۔ (صفو ۃ، کبیر، معالم وغیرہ) ۔ اور یا اس سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ ۔ علی نبینا و (علیہ السلام) ۔ کو عطا فرمائے گئے تھے کہ ان کے ذریعے بھی حق اور باطل کے درمیان فرق وتمیز حاصل ہوتی ہے۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگوں کو کتاب ہدایت بھی دی اور فرقان سے بھی نوازا مگر تم لوگ سیدھے نہ ہوئے۔ 151 راہ حق سے سرفرازی ایک عظیم الشان نعمت : سو اس سے واضح فرمایا دیا کہ صحیح اور سیدھے راستے سے سرفرازی ایک عظیم الشان نعمت : ایک عظیم الشان نعمت یعنی تم لوگوں کو ان نعمتوں سے نوازا تاکہ تمہیں وہ صحیح راستہ مل سکے جس پر چل کر تم دنیا میں بھی پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی گزار سکو، اور جس کے نتیجے میں تم کو آخرت کی اس حقیقی، ابدی اور سدا بہار زندگی میں بھی کامیابی نصیب ہو سکے، جو اس دنیاوی زندگی جو کہ ایک عارضی اور فانی زندگی ہے، کے بعد آنے والی زندگی ہے۔ سو راہ حق و ہدایت سے سرفرازی انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی اور کامرانی سے بہرہ ور کرنے والی ایک عظیم الشان نعمت خداوندی ہے۔ اور ایسی کامل اور سچی ہدایت و راہنمائی انسان کو اپنے خالق ومالک کے سوا اور کہیں سے ملنی ممکن ہی نہیں۔ پس ہدایت کی نعمت وہ سب سے بڑی نعمت ہے جو حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی طرف سے اس کے بندوں کو عطا کی جاتی ہے کہ اسی کے ذریعے انسان کو صحیح راہ ملتی ہے اور وہ حیات طیبہ سے سرفراز ہوتا ہے۔ اور حق و ہدایت سے محرومی کی صورت میں انسان محض حیوان بن کر رہ جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور کتاب ہدایت کی نعمت اب اپنی آخری اور تکمیلی شکل میں قرآن حکیم کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ پس اس کا شکر ادا کرنا سب سے بڑا حق ہے جو بندہ مومن پر واجب ہوتا ہے ۔ فالحمد للہ الذی شرفنا بنعمۃ الایمان بہذا الکتاب وبالاشتغال بہ تعلما و تعلیما و تفسیرا و تذکیرا ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ہر شائبہ شرک و ریا سے محفوظ رکھے اور اس پر دوام و استقامت نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top