Tafseer-e-Madani - Al-Hajj : 39
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙ
اُذِنَ : اذن دیا گیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو يُقٰتَلُوْنَ : جن سے لڑتے ہیں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ ظُلِمُوْا : ان پر ظلم کیا گیا وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي نَصْرِهِمْ : ان کی مدد پر لَقَدِيْرُ : ضرور قدرت رکھتا ہے
جہاد کی اجازت دے دی گئی ان ستم رسیدہ لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور بیشک اللہ ان کی مدد پر بہرحال پوری قدرت رکھتا ہے
81 مظلوموں کو جہاد کی اجازت : یعنی چونکہ ان پر ظلم ہوتا رہا اس لیے ان کو اس ظلم کیخلاف جہاد کی اجازت دی جاتی ہے، (مدارک، کبیر، اور صفوۃ وغیرہ) ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ یہ پہلی آیت کریمہ ہے جس میں جہاد کی اجازت دی گئی، اور ان مظلوموں سے مراد آنحضرت ﷺ اور آپ کے وہ صحابہ کرام ہیں جو کہ اپنے دین و ایمان کے باعث کفار کے طرح طرح کے مظالم کا شکار ہو رہے تھے، جن کو ان کے گھروں سے بےگھر کیا گیا اور وہ حضور سے جب اپنی مظلومیت پیش کرکے جہاد کی اجازت مانگتے، تو آپ ﷺ ان کو صبر و ضبط ہی سے کام لینے کی ہدایت فرماتے، یہاں تک کہ ہجرت مدینہ کے بعد یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، اور اس میں ان کو جہاد کی اجازت مرحمت فرمائی گئی، (ابن کثیر، مدارک، خازن، صفوۃ، اور معارف وغیرہ) اور اس سے پہلے ان کو اس حیات آفریں اور کیف آور خوشخبری سے نوازا گیا کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی طرف سے مدافعت فرماتا ہے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کی پوری قدرت رکھتا ہے، سبحان اللہ کیسی عظیم الشان دولت ہے یہ ایمان و یقین کی دولت جس سے سرفرازی کے بعد انسان اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کی ایسی عظیم الشان نعمتوں اور بشارتوں کا اہل بن جاتا ہے، اور اللہ پاک جو کہ قادر مطلق ہے وہ ان ایمان والوں کی طرف سے دفاع فرماتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کمال ایمان و یقین سے سرشار رکھے ۔ آمین۔ 82 وعدئہ خداوندی کی توفیق وتقویت : سو اوپر والے وعدئہ خداوندی کی توفیق وتقویت کے طور پر ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے : پس اس قادر مطلق کی نصرت و امداد اور پشت پناہی جسے حاصل ہوگی اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا، پس شرط یہ ہے کہ اہل ایمان کا تعلق اور معاملہ اس خالق ومالک کے ساتھ صحیح ہو، کہ ایمان و یقین بھی پختہ ہو اور اس پر بھروسہ اور اعتماد بھی کامل ہو، اور حضرات صحابہ کرام ؓ چونکہ اس میں کامل تھے اس لیے ان کو اس نے اپنی اس خاص نصرت و امداد سے نوازا، جس سے وہ فتح و نصرت کی بلندیوں کو پہنچے اور ان کے دشمن ان کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوئے، (المراغی وغیرہ) ۔ سو اس ارشاد ربانی میں مذکورہ وعدئہ مدافعت کی توفیق بھی ہے اور کفار قریش کے لیے ایک سخت قسم کی تہدید بھی۔ یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ ن مٹھی بھر مسلمانوں کی کیا حیثیت ہے اور کوئی ان کی مدد کر کے ان کو کیا تقویت پہنچا سکتا ہے۔ سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ لوگ ہیں تو اگرچہ مٹھے بھر لیکن ان کی پشت پر خدا تعالیٰ کی مدد ہے جو کہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اللہم فکن لنا ولا تکن علینا بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ -
Top