Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور خدائے رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر چلتے ہیں عاجزی اور فروتنی کے ساتھ اور جب ان سے الجھنے اور جھگڑنے لگیں جہالت والے تو یہ ان کے جواب میں سلامتی والی بات کہہ دیتے ہیں
80 خدائے رحمن کے بندوں کی امتیازی صفات کا ذکر وبیان : سو یہاں سے ختم سورت تک خدائے رحمن کے خاص بندوں کے امتیازی اوصاف بیان فرمائے گئے ہیں کہ یہ اضافت تعظیم و تکریم کی ہے۔ تاکہ اس طرح ایک طرف تو اہل حق کے سچے نمونے سامنے آجائیں تاکہ جو ان کو اپنانا چاہے اپنا سکے۔ اور دوسری طرف ہر انسان اپنی سیرت و کردار کو اس کے مطابق استوار کرسکے۔ اور اس مقدس و مثالی زندگی کے اولین و کامل مصداق رسول اللہ (علیہ الصلوۃ والسلام) اور آپ کے صحابہ کرام تھے ۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔ اور ان کے بعد ان کے نقش قدم پر چلنے والے تابعین اور اَتْباع تابعین الی یَوْمِ الّدِین سب اس میں داخل ہیں۔ سو خدائے رحمن کے یہ خاص بندے وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو کائنات کی اس کھلی کتاب میں پھیلی بکھری نشانیوں میں صحیح طور سے غور و فکر کرتے ہیں کہ ان کے دل و دماغ زندہ و سلامت ہوتے ہیں اور وہ ان نشانیوں سے صحیح سبق لیتے اور اپنے خالق ومالک کی طرف سے نازل فرمودہ کتاب حکیم کی آیات بنیات پر صدق دل سے ایمان لاتے اور اس کے آگے جھکتے ہیں۔ جس سے ان کی زندگیاں باقی تمام لوگوں سے الگ اور امتیازی شان کی ہوجاتی ہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 81 عاجزی اور فروتنی کی صفت محمود کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " وہ زمین پر چلتے ہیں عاجزی اور فروتنی کے ساتھ "۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی تصنع اور بناوٹ سے کام لیتے ہوئے کوئی خاص چال اپناتے ہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر متکبرانہ انداز سے نہیں بلکہ تکبر سے خالی اللہ کے عاجز بندوں کی طرح شریفانہ اور فطری چال چلتے ہیں۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں شمائل میں مذکور ہے کہ آپ اس طرح قوت اور مضبوطی سے پاؤں رکھتے تھے جیسا کہ کسی نشیب میں اتر رہے ہوں۔ اور حضرت عمر۔ ؓ ۔ نے جب ایک آدمی کو مریل قسم کی چال چلتے دیکھا تو فرمایا کیا تم بیمار ہو ؟ اس نے کہا نہیں۔ تو آپ ؓ نے اپنا درہ اٹھا کر فرمایا کہ پھر سیدھے کیوں نہیں چلتے ؟ یعنی تکلف اور بناوٹ سے کام لینے کی بجائے فطری چال چلنا چاہیئے ؟ بہرکیف یہ خدائے رحمن کے بندوں کی پہلی صفت ہے جس کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ اکڑے ہوئے نہیں چلتے بلکہ خاکساری اور فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور ان کی چال ڈھال سے کبر و غرور کی بجائے تواضع اور انکساری ٹپک رہی ہوتی ہے۔ اور یہ چال دراصل ان کے باطن کی کیفیت کا اظہار اور اس کا عکس ہوتا ہے۔ ان کے بواطن و قلوب پر خداوند قدوس کی عظمت وکبریائی کی ہیبت ایسی چھائی ہوتی ہے کہ اس کا ظہور ان کے ہر اس قدم سے ہوتا ہے جو وہ زمین پر رکھتے ہیں۔ انسان کی چال ڈھال دراصل اس کے باطن کی کیفیت کا عکس ہوتا ہے۔ متکبر انسان کا چلنا اور ہوتا ہے اور متواضع اور منکسر المزاج انسان کا اور۔ سو خدائے رحمن کے ایسے بندے حق کے سامنے اکڑنے کی بجائے اس کے سامنے سرتسلیم خم کرکے عاجزانہ چلتے ہیں۔ جو ان کی شان بندگی کا عکس اور ان کا تقاضا ہوتا ہے۔ 82 جاہلوں کے ساتھ الجھاؤ سے اجتناب و احتراز کی صفت محمود کا ذکر : سو اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ خدائے رحمن کے بندوں کی دوسری خاص صفت یہ ہے کہ وہ جاہلوں سے الجھتے نہیں۔ جاہل سے یہاں پر مراد صرف ان پڑھ نہیں بلکہ ہر وہ شخص مراد ہے جو جہالت کے کام پر اتر آئے۔ خواہ وہ کتنی ہی ڈگریاں اور سندیں کیوں نہ اٹھائے ہوئے ہو۔ اسی لئے ہم نے جاہلوں کا ترجمہ " جہالت والے " سے کیا ہے۔ اور " خَاطَبَ " سے مراد محض تخاطب اور ہم کلام ہونا نہیں بلکہ اس سے مراد ہے الجھنا اور جھگڑنا۔ جیسا کہ صیغہ مفاعلہ کا تقاضا ہے۔ بہرحال جب کوئی بھی جہالت والا اللہ کے ان خاص بندوں سے الجھنے اور جھگڑنے لگے تو یہ جواباً الجھنے اور جھگڑنے کی بجائے امن و سلامتی والی بات کہہ کر معاملہ ٹال دیتے ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ ان کی اس روش کے بارے میں ان کا قول اس طرح بیان فرمایا گیا ۔ { لَا نَبْتَغِی الْجَاہِلِیْن } ۔ " ہم جاہلوں کو منہ نہیں لگاتے " اور جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاہَلِیْنَ } ۔ " اور کنارہ کشی کرلو جاہلوں سے "۔ سو جاہلوں کی طرف سے پیش آنے والی بدتمیزی اور انکے تمسخر و استہزاء کے جواب میں الجھنے کی بجائے سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے انکو سلام کرکے یہ ان سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں اور سلام کرکے کسی سے علیحدگی اور کنارہ کشی اختیار کرنے کا طریقہ بڑا مہذب، شائستہ اور بابرکت طریقہ ہے۔ اور اس طریقے کے ساتھ کسی سے علیحدگی اور کنارہ کشی اختیار کرنے میں خیر و برکت کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی کے اندر خیر کی کوئی رمق موجود نہ ہوگی تو وہ اپنے رویئے پر نظر ثانی کرے گا اور الجھنے الجھانے کی بجائے بات کو صحیح طریقے سے سننے اور ماننے کیلئے تیار ہوجائے گا۔ اور اگر اس میں خیر کی کوئی رمق بھی نہیں ہوگی تو ایسے بےخیرے لوگوں کو منہ لگانا عباد الرحمن کی شان کے لائق نہیں ہوسکتا ۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی ناشائستگی سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور ایمان و یقین کی صفات عالیہ سے بہرہ ور و سرشار رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top