Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 109
وَ مَاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۚ
وَ : اور مَآ اَسْئَلُكُمْ : میں نہیں مانگتا تم سے عَلَيْهِ : اس پر مِنْ : کوئی اَجْرٍ : جر اِنْ : نہیں اَجْرِيَ : میرا اجر اِلَّا : مگر (صرف) عَلٰي : پر رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : رب العالمین
اور میں تبلیغ حق کے اس کام پر تم سے کوئی صلہ و بدلہ نہیں مانگتا، میرا صلہ و بدلہ تو بس رب العالمین ہی کے ذمے ہے
62 پیغمبر کی دعوت خالص اللہ کے لیے : اس میں دنیاوی مفاد کا کوئی شائبہ شامل نہیں ہوتا بلکہ وہ خالص اللہ کے لیے ہوتی ہے۔ اس لیے حضرت نوح نے اپنی قوم سے فرمایا " اور میں تم لوگوں سے اس کام پر کوئی اجر نہیں مانگتا "۔ { مِنْ اَجْرٍ } فرمایا گیا ہے۔ جس میں نکرہ تحت النفی کے عموم کے علاوہ من جارہ کا اضافہ بھی فرما دیا گیا ہے۔ جس سے مزید تعمیم آگئی۔ کیونکہ عربی میں " رجل " اور " من رجل " کے درمیان معنوی اعتبار سے بڑا فرق ہے۔ اس لئے اب اس کے معنیٰ یہ ہوجائیں گے کہ " میں تم سے کسی بھی قسم کا اجر اور کوئی صلہ و معاوضہ اور بدلہ نہیں مانگتا " نہ ووٹ نہ نوٹ۔ نہ صلہ نہ ستائش وغیرہ وغیرہ۔ میں تو بس تمہاری بھلائی و خیر خواہی اور اپنے اللہ کی رضا چاہتا ہوں۔ اور دعوت حق کی دولت اتنی عظیم الشان دولت اور اس قدر بڑی نعمت وسعادت ہے کہ اس کا اجر و صلہ تو بس اللّٰہ رَبُّ الْعٰلَمِیْن ہی دے سکتا ہے جس کی عطاء و بخشش لامحدود اور جس کا فضل و کرم بےانتہاء ہے۔ ورنہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اس کا صلہ نہیں دے سکتا۔ کیونکہ وہ جو بھی کچھ دے گا اس کا تعلق اسی دنیائے فانی اور اس کے حطام زائل ہی سے ہوگا اور بس۔ اور یہ دنیا تو بہرحال زائل وفانی اور ایک آنی جانی چیز ہے۔ سو اس میں داعی حق کے لئے ایک بہت بڑا اور بنیادی درس ہے کہ وہ دعوت حق پر کسی دنیاوی اجر و صلہ کی کوئی توقع اہل دنیا سے نہ رکھے۔ بلکہ رب العلمین ہی سے اس کا طالب ہو جو اس کو اس کے وہم و گمان سے بھی کہیں بڑھ کر عطا فرمائے گا۔ اس دنیا میں بھی قلبی راحت و سکون، حقیقی عزت و آبرو اور سچی ناموری اور حیات طیبہ ۔ پاکیزہ زندگی ۔ کی صورت میں اور آخرت کی اس حقیقی زندگی اور وہاں کے اس ابدی جہان میں بھی حقیقی اور ابدی کامیابی کی صورت میں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے نصیب فرمائے اور ہمیشہ اپنی خاص رحمت و عنایت کے سائے میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top