Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 121
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی وَمَا : اور نہ كَانَ : تھے اَكْثَرُهُمْ : ان کے اکثر مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے مگر اکثر لوگ پھر بھی ایمان والے نہیں
68 نشانی عبرت میں دعوت غور وفکر : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے۔ اس پر کہ کفر و باطل کا آخری انجام بہرحال تباہی اور ہلاکت ہے۔ خواہ اس کے لئے ان کو کتنی ہی ڈھیل اور مہلت کیوں نہ ملے۔ اور آخری غلبہ اور کامیابی حق اور اہل حق ہی کے لئے ہے خواہ اس کے لئے ان کو ابتلاء و آزمائش کی کتنی ہی بھٹیوں سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ۔ { وَالْعَاقِبَۃُ لِلَّتْقٰوی } ۔ نیز فرمایا گیا ۔ { وَالْعَاقِبَۃُ للْمُتََّقِیْنَ } ۔ پس مومن کی شان اور اس کا کام یہ اور صرف یہ ہے کہ وہ راہ حق و صواب پر ثابت قدم و مستقیم رہے۔ اور بھروسہ ہمیشہ اپنے رب ہی پر رکھے کہ حق کہتا پکارتا اور حق و ہدایت کی دعوت دیتا رہے۔ آخرِکار کامیابی بہرحال اسی کی اور صرف اسی کی ہوگی ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ ۔ مگر لوگوں کی اکثریت پھر بھی ایمان لانے والی نہیں۔ اور تیرے رب کی شان ہے کہ وہ انتہائی زبردست ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی مہربان بھی ہے۔ اسی لیے اس نے انکو ڈھیل دے رکھی ہے ورنہ انکو کبھی کا ختم کردیا گیا ہوتا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس میں اس بات کی نشانی ہے کہ دعوت الی اللہ کے لیے کس قدر صبر و استقامت کی ضرورت ہے۔ اور حضرت نوح نے اس راہ میں کس قدر صبر و استقامت سے کام لیا ۔ علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام -
Top