Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 121
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً١ؕ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی وَمَا : اور نہ كَانَ : تھے اَكْثَرُهُمْ : ان کے اکثر مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
بیشک اس کے اندر بہت بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَـۃً ط وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ ۔ وَاِنَّ رَبَّکَ لَہُوَالْعَزِیْزُالرَّحِیْمُ ۔ (الشعرآء : 121، 122) (بیشک اس کے اندر بہت بڑی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ بیشک تیرا رب عزیزورحیم ہے۔ ) یہ آخر میں وہی آیت ترجیع ہے جو اس سے پہلے بھی تین دفعہ گزر چکی ہے۔ روئے سخن قریش کی طرف ہے کہ یہ بار بار آپ ﷺ سے نشانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کو واقعی کوئی نشانی ہی مطلوب ہے تو طوفانِ نوح سے بڑی نشانی اور کیا ہوگی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی پوری سرگزشت بجائے خود ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ اگر نشانی سے ہی ایمان لانا ہے تو پھر اس نشانی پر ایمان لائیے لیکن جیسے قوم نوح میں اکثر ایمان لانے والے نہ تھے، یہی حال قریش کا بھی ہے۔ ان کے سامنے مسلسل نشانیاں آرہی ہیں، لیکن یہ کسی سے سبق لینے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے، وہ جب چاہے پکڑ سکتا ہے، لیکن وہ ساتھ ہی رحیم بھی ہے اس لیے مسلسل مہلت دیئے چلا جارہا ہے، شاید یہ لوگ مہلت سے فائدہ اٹھائیں۔
Top