Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 152
وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ١ۚ حَتّٰۤى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِیَبْتَلِیَكُمْ١ۚ وَ لَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ صَدَقَكُمُ : البتہ سچا کردیا تم سے اللّٰهُ : اللہ وَعْدَهٗٓ : اپنا وعدہ اِذْ : جب تَحُسُّوْنَھُمْ : تم قتل کرنے لگے انہیں بِاِذْنِھٖ : اس کے حکم سے حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب فَشِلْتُمْ : تم نے بزدلی کی وَ تَنَازَعْتُمْ : اور جھگڑا کیا فِي الْاَمْرِ : کام میں وَعَصَيْتُمْ : اور تم نے نافرمانی کی مِّنْ بَعْدِ : اس کے بعد مَآ اَرٰىكُمْ : جب تمہیں دکھایا مَّا : جو تُحِبُّوْنَ : تم چاہتے تھے مِنْكُمْ : تم سے مَّنْ يُّرِيْدُ : جو چاہتا تھا الدُّنْيَا : دنیا وَمِنْكُمْ : اور تم سے مَّنْ يُّرِيْدُ : جو چاہتا تھا الْاٰخِرَةَ : آخرت ثُمَّ : پھر صَرَفَكُمْ : تمہیں پھیر دیا عَنْھُمْ : ان سے لِيَبْتَلِيَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے وَلَقَدْ : اور تحقیق عَفَا : معاف کیا عَنْكُمْ : تم سے (تمہیں) وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُوْ فَضْلٍ : فضل کرنے والا عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور یقینا اللہ نے سچ کر دکھایا تم لوگوں سے اپنا وعدہ، جبکہ تم لوگ ان (دشمنان اسلام) کو تہ تیغ کرتے چلے جا رہے تھے اللہ کے (حکم و) اذن سے، یہاں تک جب تم لوگوں نے بزدلی دکھائی، اور جھگڑا ڈال دیا اپنے معاملے میں، اور تم نے نافرمانی کا ارتکاب کیا، اس کے بعد اللہ نے تم کو دکھا دیا تھا وہ کچھ جس سے تم لوگ محبت رکھتے تھے، (یعنی فتح و نصرت)4 تم میں سے کچھ دنیا چاہتے تھے اور کچھ آخرت، پھر اللہ نے تم کو پھیر دیا ان لوگوں سے، (جس سے تم پسپائی سے دو چار ہوگئے) تاکہ اس طرح وہ تمہاری آزمائش کرے، اور البتہ تحقیق اس نے معاف فرما دیا تم سب کو، اور اللہ بڑا ہی فضل والا ہے ایمانداروں پر
304 اللہ کا وعدہ بہرحال اور قطعی طور پر سچا : سو ارشاد فرمایا گیا اور یقینا اللہ نے سچا کر دکھایا تم لوگوں سے اپنا وعدہ جو کہ اس نے تمہاری نصرت و امداد کے بارے میں تم سے فرمایا تھا { وََاِنْ تَصْْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا } الآیۃ (آل عمران : 120) ۔ یعنی " اگر تم لوگوں نے صبر اور تقویٰ کو اپنائے رکھا، تو ان کی چالوں سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا "۔ روایات میں ہے کہ غزوہ احد میں جب مسلمانوں کو عارضی شکست سے دوچار ہونا پڑا تو ان میں سے بعض کے دلوں میں اس طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے کہ اگر واقعی ہم سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا گیا تھا تو پھر ہمیں اس شکست سے دوچار کیوں ہونا پڑا ؟ تو اس آیت کریمہ میں اس کا جواب دیا گیا کہ اللہ پاک نے تم سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا فرما دیا تھا، جبکہ تم لوگ ان کو گا جر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے۔ اور غلبہ تمہارا ہی تھا۔ یہاں تک کہ تم نے اپنی ان کمزوریوں کی وجہ سے جن کا ذکر آگے فرمایا جا رہا ہے اپنی جیتی ہوئی بازی کو عارضی شکست و ہزیمت سے دوچار کردیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو قصور تم لوگوں کا خود اپنا ہے۔ 305 فتح و نصرت اللہ ہی کی طرف سے ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب تم لوگ ان [ دشمنان اسلام ] کو تہ تیغ کرتے چلے جا رہے تھے اللہ کے اذن اور حکم سے کہ فتح و غلبہ کا حصول اصل میں اس وحدہ لاشریک کے اذن و حکم ہی پر موقوف و منحصر ہے نہ کہ ظاہری اسباب و وسائل پر۔ پس غزؤہ احد میں تم لوگوں کو شروع میں جو شاندار فتح نصیب ہوئی وہ اللہ تعالیٰ ہی کی توفیق و عنایت سے تھی۔ پس اس کو تم لوگ کہیں اپنا ہی کمال قرار دیکر اپنے خالق ومالک کی اس توفیق و عنایت اور اس کے حق شکر سے غافل نہیں ہوجانا، بلکہ اس کو اسی کا کرم سمجھ کر دل و جان سے اس کا شکر بجا لانا کہ فتح و نصرت سب کچھ اللہ وحدہ لاشریک ہی کی طرف سے ہے۔ سو { باذنہ } کے کلمہ کریمہ سے اسی کا درس دیا گیا ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت سے متعلق اپنا وعدہ پورا فرما دیا تھا۔ تم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے اذن و حکم سے کامیاب اور فتح یاب ہوگئے تھے اور تم ان کو تہ تیغ کر رہے تھے یہاں تک کہ تم نے اپنی کمزوری اور حکم عدولی کی بناء پر اس کو شکست سے بدل دیا۔ لہٰذا اب تم لوگوں کا منکرین و منافقین کے پروپیگنڈے اور ان کی باتوں کی بناء پر شکوک و شبہات میں مبتلا ہونا کیونکر درست ہوسکتا ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس اس سے آئندہ کے لیے سبق لو ۔ وباللہ التوفیق - 306 شکست کی ذمہ داری خود مسلمانوں پر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہاں تک کہ تم لوگوں نے بزدلی دکھائی۔ سو احد میں ہارنے کی ذمہ داری خود تم پر ہے اے مسلمانو ! : سو تم فتحیاب ہوگئے تھے۔ یہاں تک کہ تم نے بزدلی دکھائی اپنی رائے اور اپنی ہمت و عزیمت میں۔ کہ نبی اکرم ﷺ نے پچاس افراد کا ایک دستہ جو حضرت عبداللہ بن جبیر کی سربراہی اور ان کی کمانڈ میں ایک مورچے پر مقرر فرمایا تھا، انہوں نے اپنے امیر سے اختلاف کیا۔ اور نبی ٔ اکرم ﷺ سے نئی منظوری لئے بغیر وہ مورچہ چھوڑ دیا اور صرف بارہ آدمی وہاں رہ گئے۔ جس سے فائدہ اٹھا کر دشمن وہیں سے حملہ آور ہوا اور تمہاری فتح کو شکست میں بدل دیا۔ اور اس طرح تم لوگ اپنی جیتی ہوئی بازی ہار گئے۔ سو احد میں ہارنے کی ذمہ داری خود تم پر عائد ہوتی ہے اے مسلمانو ! نہ کسی اور پر۔ پس تم خود اپنے حال میں غور کر کے اپنی اصلاح کرو۔ سو اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ۔ ازما ست کہ برما ست ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 307 اختلاف اور جھگڑا باعث نکبت و وبال ۔ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگوں نے جھگڑا ڈال دیا اپنے معاملے میں کہ اس دستے کے کمانڈر نے کہا کہ ہم اس وقت تک یہاں سے نہیں ہٹیں گے جب تک کہ اللہ کے رسول ہمیں اس کا حکم نہیں فرمائیں گے۔ تو ان مجاہدین نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ مورچے پر رہنے کا حکم تو اس وقت تک تھا جبکہ لڑائی لڑی جارہی تھی۔ اور اب جبکہ لڑائی ختم ہوچکی ہے اور مال غنیمت اکٹھا کیا جا رہا ہے تو اب ہمارے یہاں باقی رہنے کا کوئی مقصد ہی نہیں۔ سو اسی جھگڑے اور اختلاف کی بنیاد پر تم لوگوں کو یہ انجام بد دیکھنا پڑا۔ تمہاری پوزیشن کمزور ہوگئی اور اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن نے وہیں سے تم پر حملہ کردیا۔ سو باہمی اختلاف اور نزاع وجدال باعث کمزوری ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اسی لیے دین حنیف نے سمع وطاعت، یعنی سننے ماننے اور اطاعت امیر پر بہت زور دیا ہے کہ اسی میں امت کی شیرازہ بندی ہے اور اسی بنا پر رحمت و عنایت خداوندی کا نزول ہوتا ہے اور فتح و نصرت کے دروازے کھلتے ہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 308 پیغمبر معاصی وذنوب باعث نقصان و خسران ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگوں نے معصیت و نافرمانی کا ارتکاب کیا کہ تم مورچہ چھوڑ کر چلے آئے۔ سو یہاں پر ذرا رک کر اور اس بارے بھی غور کرنے اور عبرت پکڑنے کی ضرورت ہے کہ ان حضرات صحابہ کرام ؓ سے اللہ کے رسول (علیہ الصلوۃ والسلام) کے ایک حکم کی خلاف ورزی ہوگئی۔ اور وہ بھی جان بوجھ کر اور قصداً نہیں، بلکہ اجتہادی خطاء کی بناء پر۔ تو اس کا ان کو اس قدر بھگتان بھگتنا پڑا۔ تو پھر کیا خیال ہے آپ کا ان لوگوں کے بارے میں جن کی زندگیوں، اور جن کی بود و باش اور معاشرے کا پورا نظام ہی اللہ اور اس کے رسول کے احکام و فرامین کی خلاف ورزیوں اور صریح خلاف ورزیوں پر قائم ہے۔ عقائد ہیں تو کھلم کھلا مشرکانہ۔ اخلاق ہیں تو قرآن و سنت کی تعلیمات مقدسہ کے صریحاً خلاف نظام معیشت و معاشرت ہے تو باغیانہ و سرکشانہ۔ سود اعلانیہ کھایا جا رہا ہے اور سودی لین دین اس قدر عام ہے کہ اس سے بچنا بھی کارے دارد۔ جھوٹ، دھوکہ بازی، فریب کاری، مکاری وغیرہ وغیرہ کون سی برائی ہے جو آج کے مسلم معاشرے میں موجود نہیں ؟ ۔ الا ماشاء اللہ ۔ قبروں کی پوجا کی جا رہی ہے اور کھلم کھلا اور اعلانیہ کی جا رہی ہے۔ غیر اللہ کی نذر ونیاز کا کاروبار عام ہے۔ نمازوں کی پرواہ نہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کی کوئی فکر و اہتمام نہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات سے یکسر غفلت اور لاپرواہی برتی جا رہی ہے۔ فحاشی و عریانی چارسو پھیلی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ غرضیکہ ۔ تن ہمہ داغ داغ شد ۔ پنبہ کجا کجا نہم ۔ والا معاملہ ہوگیا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ کیوں ٹوٹ رہے ہیں ؟ طرح طرح کے عذاب کیوں مسلط ہو رہے ہیں ؟ اور ہم پر ایسے اور ایسے حالات کیوں گزر رہے ہیں ؟ اور اس حقیقت کو نہ کوئی دیکھتا ہے نہ اس میں غور کرتا ہے کہ ۔ ازما مست کہ برما است ۔ اور معدہ اور مادہ کی غلامی میں جکڑی ہوئی دنیا کو اس کا نہ کوئی پاس ہے نہ احساس ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس سے بڑھ کر خسارہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ مریض اپنے مرض کے علاج کی بجائے یہ کہے کہ میں بیمار ہوں ہی نہیں ۔ فَاِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہ رَاجِعُوْنَ ۔ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلَناَ وَارْحَمْنَا وَاَصْلِحْ حَالَناَ واَحْسِنَ مآلَنَا ۔ یا اَرْحَمَ الرََّاحِمِیْنَ و یَا اَکْرَمَ الاَکْرَمِیْنَ ۔ آمین ثم آمین یارَبَّ الْعَالَمِیْنَ ۔ بہرکیف پیغمبر کی معصیت و نافرمانی کا نتیجہ وانجام بڑا ہولناک ہے اور معاصی وذنوب باعث خسارہ ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 309 { مَا تُحِبُّوْنَ } سے مقصود و مراد ؟ اور ایک مغالطے کا جواب : جمہور علماء و مفسرین کرام { مَا تُحِبُّوْنَ } سے یہی مراد لیتے ہیں، یعنی فتح و نصرت۔ اور سیاق وسباق بھی اسی کا متقاضی ہے۔ متبادرالی الذھن بھی یہی ہے۔ اور مسلمان اور خاص کر حضرات صحابہ کرام کے شایان شان بھی یہی چیز ہے کہ حق کا غلبہ اور فتح و نصرت ہی ان کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔ اور تمام ثقہ اور معتمد مفسرین کرام نے بھی اس سے یہی معنی مراد لئے ہیں۔ چناچہ ایسے تمام حضرات اس موقع پر اس کا مفہوم اس طرح کے الفاظ سے بیان فرماتے ہیں " مِنَ النَّصْرِوَالظَّفْر " (ابن کثیر، مراغی، محاسن التاویل، اور خازن وغیرہ) ۔ مگر اس سب کے برعکس دور حاضر کے ایک مشہور مفسر صاحب کا کہنا ہے کہ اس سے مراد مال غنیمت ہے اور پھر اس کو بیان بھی موصوف نے ایسے سخت الفاظ میں کیا جن سے ایک عام قاری کے ذہن میں حضرات صحابہ کرام ۔ علیھم الرحمۃ والرضوان ۔ کے بارے میں ایک غلط تاثر ہی ابھرتا ہے۔ چناچہ موصوف کے الفاظ ہیں " اور جونہی وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مال غنیمت) " (تفہیم القرآن) ۔ سو تعجب ہوتا ہے کہ موصوف نے ایسی سخت بات اور اتنے سخت الفاظ میں کیسے لکھ دی۔ حضرات مفسرین کرام میں سے کسی نے اگر { مَا تُحِبُّوْنَ } کا مصداق مال غنیمت کو قرار دیا بھی ہے تو ذیلی و ضمنی انداز میں۔ اور قول مرجوح کے طور پر۔ اور بڑے ہلکے انداز میں۔ مگر موصوف نے تو اس کو قول واحد کے طور پر اور اس قدر سخت انداز میں لکھا جو کہ باعث تعجب بھی ہے اور موجب افسوس بھی ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَزِیْز الرَّحْمٰن ۔ بہرکیف جمہور علماء و مفسرین کرام کے نزدیک { مَا تُحِبُّونَ } سے مراد فتح و نصرت ہے۔ جس سے قدرت نے ان کو بہرہ ور و سرفراز کیا تھا۔ اور یہ حضرات دشمن پر غالب آگئے تھے۔ اور فتح و نصرت کا یہ مقصد ہی اصل اور حقیقی مقصد ہے۔ 3 10 صرف دنیا کو مقصد بنانا باعث محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم میں سے کچھ لوگ تو صرف دنیا چاہتے تھے اور کچھ آخرت۔ یعنی تم میں سے کچھ تو یہ چاہتے تھے کہ آخرت کے ثواب کے ساتھ ساتھ دنیوی مال و دولت اور غنیمت بھی مل جائے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی ایسا عیب نہیں جس پر گرفت کی جاسکے۔ کیونکہ مال انسان کی ضرورت بھی ہے اور مال کے معنی ہی یہ ہیں کہ جس کی طرف انسان کا میلان ہو " مَا تَمِیْلُ اِلَیْہ النَّفْسُ " اور مال غنیمت سے ملنے والے حصے کو تو لسان نبوت سے سب سے اچھی اور پاکیزہ روزی قرار دیا گیا ہے۔ اور امام المجاہدین حضرت نبی اکرم ﷺ تو فرماتے ہیں کہ " میری روزی میرے نیزے کے نیچے رکھ دی گئی ہے "۔ " جُعِلَ رِزْقِیْ تَحْتَ رُمْحِیْ "۔ اور پھر حضرات صحابہ کرام ۔ علیھم الرحمۃ والرضوان ۔ کے بارے میں حب دنیا کا الزام لگانے والے ذرا اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا خود ان کے دل مال کی محبت سے خالی ہیں ؟ بہرکیف فرمایا گیا کہ تم میں سے کچھ تو آخرت کے اجر وثواب ساتھ ساتھ دنیاوی مال بھی چاہتے تھے اور کچھ ایسے عالی ہمت بھی تھے کہ جو صرف آخرت ہی چاہتے تھے کہ انکے سامنے آخرت ہی آخرت تھی۔ دنیا کی ان کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ اور ظاہر ہے کہ ان کا درجہ بڑا بلند ہے کہ انہوں نے آخرت کی زندگی ہی کو ترجیح دی جو کہ اصل، حقیقی اور ابدی زندگی ہے۔ اور مومن کو ہمیشہ اسی کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے ۔ وباللہ التوفیق ۔ سو طلب دنیا باعث محرومی و رسوائی ہے ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا - 311 ہزیمت احد ابتلاء و آزمائش کا ذریعہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر اللہ نے پھیر دیا تم لوگوں کو ان سے جس کے نتیجے میں تم لوگ اس پسپائی سے دوچار ہو گیے۔ یعنی اس سے بھی اصل اور بڑا مقصد تمہاری سزا نہیں، بلکہ آزمائش تھی، تاکہ اس طرح کچا پکا الگ ہوجائے اور کھرے کھوٹے میں تمیز ہوجائے، اور یہ فرق وتمیز عملی طور پر اور اس طرح ہوجائے کہ پھر کسی کیلئے اس کے انکار و تردید کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ سو ان حضرات سے اگر اس طرح کی کوئی کمزوری صادر ہو بھی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے نہیں کرتا کہ ان پر اپنا غضب نازل کر دے بلکہ وہ خود ان کو ایسی آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے تاکہ اس طرح ان کی ایسی کمزوریاں دور ہوجائیں اور وہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے سزا وار بن سکیں۔ سو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے عفو و درگزر اور اس کے فضل و عنایت ہی کی ایک شکل ہے جس سے ان کو نوازا جاتا ہے۔ 312 شرکاء احد کیلئے قطعی معافی کی صریح خوشخبری : سو ارشاد فرمایا گیا اور تاکید در تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے معاف اور درگزر فرما لیا تم سب سے کہ تمہاری یہ خطا قصداً اور دانستہ نہیں تھی، بلکہ ایک اجتہادی لغزش تھی، اس لئے اس کو معاف کردیا گیا۔ لہذا اب کسی کو اس بارے لب کشائی کا کوئی حق نہیں۔ اور جو کوئی اس کے باوجود ایسے کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا ۔ والعیاذ باللہ ۔ کہ جن کو خدا معاف فرما دے انکے بارے میں کسی کو لب کشائی کا کوئی حق آخر کس طرح اور کیونکر مل سکتا ہے ؟ اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح رہے کہ ان حضرات کیلئے اس معافی کی یہ خوشخبری تاکید در تاکید کے کلمات کریمہ کے ساتھ اور اس قدر صراحت و وضاحت سے فرمائی گئی ہے۔ اس کے باوجود کوئی اگر ان صحابہ کرام ؓ پر خوردہ گیری کرے تو اس کی بدبختی میں کیا شک ہوسکتا ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف یہاں پر ان کے لئے صاف اور صریح طور پر فرما دیا گیا کہ اللہ نے تم سب سے درگزر فرما لیا اور تم کو معاف کردیا۔ تو اب کسی کیلئے ان کے بارے میں زبان درازی کا کیا حق ہوسکتا ہے۔ اور خاص کر بعد کے ان ادوار میں سے کسی دور کے کم سوادوں کے لیے ؟۔ والعیاذ باللہ العظیم - 313 اللہ بڑے ہی فضل والا ہے : اتنے بڑے فضل و کرم والا کہ اس کے فضل و کرم کی کوئی حد اور انتہاء ہی نہیں۔ اور جب اس کی شان ہی کرم کرنا اور انعام فرمانا ہے۔ اور وہ سب ہی کو نوازتا ہے اور ہمیشہ اور مسلسل و لگاتار نوازتا ہے تو پھر وہ تم لوگوں پر کیوں کرم نہیں فرمائے گا۔ جبکہ تمہارا درجہ بھی سب سے بلند ہے ؟ اور تمہاری شان ہی سب سے الگ ہے کہ تم لوگ شرف صحابیت اور صحبت رسول ﷺ سے مشرف ہو اور ایمان میں بھی تم دوسروں سے آگے ہو۔ اور اللہ بڑا ہی فضل والا ہے ایمان والوں پر۔ اس کے فضل و کرم سے سرفرازی کے لئے اولین اساس و بنیاد ایمان و یقین کی دولت سے سرفرازی ہے۔ سو ایمان و یقین کی دولت دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی دولت ہے۔ اور اس سے محرومی دارین کی سعادت و سرخروئی سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنے فضل و کرم کے سائے میں رکھے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین -
Top