Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 154
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰى طَآئِفَةً مِّنْكُمْ١ۙ وَ طَآئِفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ یَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ١ؕ یَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ١ؕ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ١ؕ یُخْفُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَ١ؕ یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَا١ؕ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْ١ۚ وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
ثُمَّ : پھر اَنْزَلَ : اس نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْۢ بَعْدِ : بعد الْغَمِّ : غم اَمَنَةً : امن نُّعَاسًا : اونگھ يَّغْشٰى : ڈھانک لیا طَآئِفَةً : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے وَطَآئِفَةٌ : اور ایک جماعت قَدْ اَهَمَّتْھُمْ : انہیں فکر پڑی تھی اَنْفُسُھُمْ : اپنی جانیں يَظُنُّوْنَ : وہ گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں غَيْرَ الْحَقِّ : بےحقیقت ظَنَّ : گمان الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے ھَلْ : کیا لَّنَا : ہمارے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام مِنْ شَيْءٍ : کچھ قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : کہ الْاَمْرَ : کام كُلَّهٗ لِلّٰهِ : تمام۔ اللہ يُخْفُوْنَ : وہ چھپاتے ہیں فِيْٓ : میں اَنْفُسِھِمْ : اپنے دل مَّا : جو لَا يُبْدُوْنَ : وہ ظاہر نہیں کرتے لَكَ : آپ کے لیے (پر) يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لَوْ كَانَ : اگر ہوتا لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَمْرِ : سے کام شَيْءٌ : کچھ مَّا قُتِلْنَا : ہم نہ مارے جاتے ھٰهُنَا : یہاں قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ كُنْتُمْ : اگر تم ہوتے فِيْ : میں بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھر (جمع) لَبَرَزَ : ضرور نکل کھڑے ہوتے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كُتِبَ : لکھا تھا عَلَيْهِمُ : ان پر الْقَتْلُ : مارا جانا اِلٰى : طرف مَضَاجِعِھِمْ : اپنی قتل گاہ (جمع) وَلِيَبْتَلِيَ : اور تاکہ ٓزمائے اللّٰهُ : اللہ مَا : جو فِيْ صُدُوْرِكُمْ : تمہارے سینوں میں وَلِيُمَحِّصَ : اور تاکہ صاف کردے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِكُمْ : میں تمہارے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں والے (دلوں کے بھید)
پھر اس (خدائے مہربان) نے (اپنی خاص رحمت و عنایت سے) تم پر (جب کہ دشمن میدان سے نکل چکا تھا) امن کی ایک خاص کیفیت طاری کردی یعنی ایک ایسی اونگھ سی جو چھا رہی تھی، تم میں سے ایک گروہ پر، جب کہ ایک اور گروہ کو اپنی جانوں ہی کی فکر کھائے جارہی تھی، یہ لوگ گمان کر رہے تھے اللہ کے بارے میں ناحق طور پر جاہلیت کا گمان، یہ لوگ (اپنے خاص انداز میں) کہتے تھے کہ کیا اس کام میں ہمارا بھی کوئی (حصہ اور) اختیار ہے ؟ کہو اختیار تو سب اللہ ہی کیلئے (اور اسی کے ساتھ خاص) ہے، یہ لوگ اپنے دلوں میں وہ کچھ چھپاتے ہیں جو آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرتے، کہتے ہیں کہ اگر ہمارے لئے بھی اس معاملہ میں کوئی شئی (رائے اور اختیار کی) ہوتی، تو ہم لوگ یہاں (اس میدان احد میں اس طرح) قتل نہ ہوتے، کہو کہ اگر تم لوگ اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو بھی وہ لوگ خود بخود (اور ضرور بالضرور) نکل آتے اپنی قتل گاہوں کہ طرف، جن پر قتل ہونا لکھ دیا گیا تھا، اور (یہ سب کچھ اس لئے بھی ہوا کہ) تاکہ اللہ آزمائش کرے اسکی جو کچھ کہ ان کے سینوں کے اندر (چھپا ہوا) ہے، اور تاکہ اللہ چھانٹ (کر الگ کر) دے وہ کچھ، جو کہ تمہارے دلوں میں ہے (شوائب وساوس میں سے) اور اللہ خوب جانتا ہے دلوں کے (اندر چھپے بھیدوں اور) رازوں کو1
318 معرکہ احد میں اہل ایمان کے لیے ایک خاص انعام کا ذکر : سو اس سے معرکہ احد میں ایمان والوں کیلئے ایک خاص انعام یعنی امن و سکون کی اونگھ کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ سو یہ گروہ مومنین مخلصین کا گروہ تھا، جن کو انکے صدق و اخلاص کی بنا پر خداوند قدوس کی طرف سے " نعاس امن " کی اس عظیم الشان نعمت سے میدان کارزار میں عین اس وقت نوازا گیا جبکہ مسلمانوں کی لاشیں خون میں لت پت تھیں۔ اور غم پر غم کی بنا پر خوف و سراسیمگی کی کیفیت چار سو پھیلی ہوئی تھی۔ تو " نعاس امن " کے اس انعام خداوندی سے ان کے غم و صدمے کی یہ کیفیت جاتی رہی۔ دشمن کے رعب سے وہ سبکسار ہوگئے اور جنگ کے تعب اور تھکان سے ہلکے ہو کر وہ تازہ دم ہوگئے ۔ سبحانہ وتعالی ۔ کیسی عظیم شان تھی ان حضرات صحابہ کی جن کیلئے قدرت کی طرف سے اس طرح آرام و راحت اور سکون اور اطمینان عین میدان معرکہ میں کیا گیا ۔ عَلَیْہِمُ الرَّحْمَۃُ وَالرِّضْوَانُ ۔ سو جنگ کی رات میں مسلمانوں نے امن کی اس نیند سے مکمل آرام پایا۔ حضرت ابوطلحہ ؓ کہتے ہیں کہ میدان کارزار میں اس اونگھ کی وجہ سے ہماری کیفیت یہ تھی کہ ہم میں سے ایک کے ہاتھ سے تلوار گرجاتی تو وہ اس کو دوبارہ اٹھاتا۔ (ابن کثیر، معارف اور مراغی وغیرہ) ۔ سو صدق ایمان و یقین سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ ہے ۔ اللہم فزدنا منہ وثبتنا علیہ یا ذا الجلال والاکرام - 319 گروہ منافقین کی حالت و کیفیت : یہ منافقوں کا گروہ تھا جو کہ اپنے نفاق اور خبث باطن کی بنا پر " نُعَاس اَمْن " کی اس نعمت سے محروم رہا تھا۔ اور ان کو امن و سکون کی بجائے اپنی جانوں کی فکر کھائے جا رہی تھی کہ اب ہمارا کیا بنے گا۔ اور دشمن کا خوف ان پر حاوی و مسلط تھا۔ سو ایمان و یقین کی دولت امن و سلامتی اور سکون و اطمینان کی نعمت سے بہرہ ور و سرفراز کرنے والی دولت ہے جبکہ اس سے محرومی سکون و اطمینان کی دولت سے اور دارین کی فوز و فلاح سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ یہ منافق لوگ اپنے نفاق کی بناء پر اللہ تعالیٰ کی اس رحمت و عنایت سے محروم تھے جن سے مسلمان سرفراز ہو رہے تھے۔ سو سکون و اطمینان ایمان و یقین کی دولت ہی سے نصیب ہوسکتا ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 320 منافقوں کے منافقانہ اور جاہلیت کے گمان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ اللہ کے بارے میں گمان کر رہے تھے ناحق طور پر جاہلیت کے گمان۔ کہ اللہ اور اس کے رسول (علیہ الصلوۃ والسلام) نے مسلمانوں سے فتح و نصرت کے جو وعدے کر رکھے تھے وہ کہاں گئے۔ اور ہمارا یہ حال کیوں ہوا۔ وہ سب کچھ دھوکہ تھا ۔ والعیاذ باللہ ۔ { مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسَوُلُہْ الاّ غُرُوْراً } الاٰیۃ (الاحزاب : 12) وغیرہ وغیرہ۔ اور اس طرح کی منافقانہ باتوں اور جاہلیت کی بدگمانیوں کے باعث یہ لوگ نور حق و ہدایت سے دور اور محروم ہوتے جارہے تھے اور کفر و نفاق کی دلدل میں مزید پھنستے جارہے تھے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو بظاہر تو یہ لوگ مسلمان بنے ہوئے تھے اور اپنے اسلام اور ایمان کے بڑے بڑے دعوے بھی کرتے تھے، لیکن ان کے اندر ایمان تھا نہیں { وَمَا ھُمْ بِمُوْمِنینَ } ۔ سو ایمان کی دولت سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ - 321 منافقوں کی دو رخی باتوں کی ایک مثال : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس موقع پر یہ لوگ کہہ رہے تھے کہ کیا اس کام میں ہمارا بھی کوئی حصہ اور اختیار ہے۔ یعنی اپنی منافقانہ روش کی بناء پر وہی دو رخی باتیں کرتے جن کا ظاہر کچھ ہوتا اور باطن کچھ۔ مثلًا ان کی یہ بات کہ کیا اس کام میں ہمارا بھی کوئی اختیار ہے ؟ اس کا ظاہری پہلو یہ تھا کہ یہ تو تقدیر کا معاملہ ہے جس میں ہم کیا کرسکتے ہیں کہ تقدیر کے مقابلے میں تدبیر بےاثر ہے۔ یا یہ کہ ہماری رائے بھی اگر قابل غور اور لائق سماعت ہو تو ہم بھی اپنی رائے پیش کریں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ مطلب درست تھا۔ مگر اس قول سے ان کا اصل مقصد دوسرا تھا کہ صاحب اگر ہماری مان لی جاتی اور مدینے سے باہر نکلنے کی بجائے اندر سے ہو کر ہی دشمن کا مقابلہ کیا جاتا تو ہمارا یہ حشر نہ ہوتا اور آج ہمیں یہ روز بد نہ دیکھنا پڑتا۔ آگے ان کے انہی نوایاء خبیثہ کا پردہ چاک کیا جاتا ہے۔ سو نفاق و منافقت باعث ہلاکت و تباہی اور موجب خسران ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 322 اختیار سب اللہ ہی کیلئے ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ اختیار تو سب اللہ ہی کیلیے ہے۔ وہ جو چاہے اور جیسے چاہے کرے۔ وہی حق اور صدق و صواب ہے کہ وہ خالق بھی ہے اور مالک بھی۔ حاکم بھی ہے اور حکیم بھی۔ حق اور بہتری بہرحال اسی میں ہے جو وہ کہے اور جو وہ کرے۔ اس میں کسی کیلئے نہ کسی قیل و قال کی کوئی گنجائش ہے اور نہ حیل و حجت کی ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اس ارشاد عالی میں حق اور حقیقت کا بیان بھی ہوگیا اور منافقوں کے قول کا ظاہر کے اعتبار سے جواب بھی۔ یعنی اس ارشاد سے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ مختار کل اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ سو غلط کہتے اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ جو اللہ کے سوا اس کی مخلوق میں سے بھی کچھ ہستیوں کو مختار کل مانتے اور ان کو خرق عادت کے طور پر متصرف جانتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اختیار سب کا سب اللہ ہی کے لئے ہے ۔ سبحانہ وتعالی ۔ کہ اس کائنات کا خالق ومالک بھی وہی ہے اور اس میں حکم و تصرف بھی اسی کا چلتا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 323 قرآن حکیم کی حقانیت کا ایک اور ثبوت : سو یہاں سے قرآن حکیم کی صداقت و حقانیت کا ایک اور ثبوت سامنے آتا ہے کہ اس نے منافقوں کے دلوں میں چھپی بات کی خبر کردی اور ان کے دلوں کے اندر چھپے ہوئے چور کو ظاہر فرما دیا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ اپنے دلوں میں وہ کچھ چھپاتے ہیں جو ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے لیے بھی اس معاملے میں کوئی شے ہوتی تو ہم یہاں پر اس طرح قتل نہ ہوتے۔ سو قرآن حکیم نے ان کے اس نفاق کو ظاہر فرما دیا جو انہوں نے اپنے گول مول الفاظ کے پردے میں چھپا رکھا تھا کہ صاحب اگر ہماری رائے اور ہمارے مشورے کی کوئی قدر و قیمت ہوتی اور ہماری بات اگر سنی اور مانی جاتی اور ہم باہر نکلنے کی بجائے مدینے کے اندر ہی رہ کر دشمن کا مقابلہ کرتے تو آج ہمارا یہ حشر نہ ہوتا۔ اور ہم احد کے میدان میں اس طرح نہ کٹتے مرتے۔ سو یہاں سے ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ یہ کلام کسی بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ دلوں کے اندر چھپی باتوں کو اس طرح جاننا اور بیان کرنا کسی انسان کیلئے ممکن نہیں بلکہ یہ شان صرف خالق بشر حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ ہی کی ہے جو کہ { عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْر } یعنی " دلوں کے بھیدوں اور رازوں کو جاننے والا ہے " اور جس کی شان " لَا تَخْفٰی عَلَیْہ خَافِیَۃٌ " کی ہے۔ پس یہ کلام مجید، قرآن حکیم اللہ وحدہ لاشریک ہی کا فرمان اور اسی کا کلام حق ترجمان ہے ۔ سُبْحَانَہ وَتَعَالٰی وَجَلَّ وَعَلَا مَجْدُہ - 324 تقدیر کا لکھا کبھی نہیں ٹل سکتا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ اگر تم لوگ اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو بھی وہ لوگ خود بخود اور ضرور بالضرور نکل آتے اپنی قتل گاہوں کی طرف جن پر قتل لکھ دیا گیا تھا۔ سو تم لوگ اگر اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو بھی وہ لوگ اپنی قتل گاہوں کی طرف چل کر آجاتے جن پر قتل ہونا لکھ دیا گیا تھا۔ کیونکہ تقدیر کا لکھا ٹل نہیں سکتا۔ اور کوئی تدبیر اس کو روک نہیں سکتی۔ سو یہ کہنا اور ایسا سمجھنا غلط ہے کہ اگر ہم اپنے گھروں سے نکل کر احد میں نہ آتے تو قتل نہ ہوتے، اور مسلمانوں کو یہ الزام دینا کہ تم نے ہمیں مروایا ہے بالکل ناروا بات ہے۔ موت نے تو اپنے وقت پر بہرحال آ کر ہی رہنا ہے۔ اور سب سے عمدہ اور بہترین موت وہ ہے جو اللہ کی راہ میں اور اس کی رضاء کیلئے آئے۔ اور بڑا خوش نصیب انسان وہ ہے جو بہادروں کی موت مرے۔ شہادت کا شرف حاصل کرے اور اپنی جان اپنے خالق ومالک کی رضاء کیلئے قربان کرے اور زندہ جاوید بن جائے۔ 325 مصائب و ہموم ذریعہ آزمائش : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ مصائب و آلام سینوں کے چھپے بھیدوں کی آزمائش اور ان کی جانچ کا ذریعہ ہیں۔ سو یہ سب کچھ اس لئے ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ آزمائش کرلے اس کی جو کہ ان لوگوں کے سینوں کے اندر تھا۔ یعنی ایمان و یقین اور صدق و اخلاص وغیرہ کے مخفی رازوں اور چھپے بھیدوں کی آزمائش تاکہ اس سے واضح ہوجائے کہ کون مومن مخلص ہے اور کون منافق و بےایمان ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور اس طرح کھرا کھوٹا سب نکھر جائے { لِیَمِیْزَ اللّٰہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ } الآیۃ (الانفال : 37) سو مصائب ومشاکل دلوں کے چھپے بھیدوں اور مخفی رازوں کو جاننے اور ان کے آزمانے کا ذریعہ و وسیلہ ہے تاکہ اس طرح باطن کی مخفی کیفیت سب کے سامنے آشکارا ہوجائے اور کھرا کھوٹا سب چھٹ کر الگ ہوجائے۔ اور اس طرح کہ کسی کے لئے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ سو مصائب و آلام کی چھلنی سے نکلنے اور چھننے کے بعد کھرا کھوٹا الگ ہوجاتے ہیں۔ اس لئے حکیم مطلق حضرت حق ۔ جل مجدہٗ ۔ کی طرف سے مصائب وآلام کے ذریعے ابتلاء و آزمائش کا سامان کیا جاتا ہے ۔ وَبِاللّٰہ التَّوْفِیْق لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ وَکَما یُحِبْ ویُریدْ ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ یہ سب کچھ دلوں کی دنیا کی آزمائش کیلئے کیا گیا۔ تاکہ کھرا کھوٹا سب واضح ہوجائے۔ 326 مصیبت کے ذریعے تصفیہ قلوب کا سامان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تاکہ اللہ چھانٹ کر الگ کر دے وہ سب کچھ جو کہ تمہارے دلوں کے اندر ہے۔ اور اس طرح تمہارے دلوں سے ہر طرح کے شوائب کا ازالہ کر کے ان میں ایسا نکھار پیدا کر دے جیسا کہ سونے کو پگھلا کر اور اس کا کھوٹ دور کر کے اس میں نکھار پیدا کیا جاتا ہے۔ اور تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کے رسول کی نافرمانی کے نتائج کس قدر سنگین ہوتے ہیں۔ اور ان کے دلوں کو ایسا کندن بنادیا جائے کہ ان کی توجہ اسباب سے ہٹ کر مسبب الاسباب پر لگ جائے اور وہ غیر اللہ کی طرف توجہ سے منزہ ہو کر خالص اللہ کے ہو کے رہ جائیں۔ سو اگر تم لوگ ہمیشہ امن و عافیت ہی میں رہتے اور فتح و نصرت اور غلبہ و استیلاء ہی سے محظوظ و بہرہ مند ہوتے رہتے تو تصفیہ باطن اور تمحیص قلوب کا یہ عظیم الشان مقصد کیسے حاصل ہوتا۔ سو اس طرح احد کی یہ عارضی اور وقتی شکست و ہزیمت بھی اتنی ہی بڑی نعمت ہے جتنی کہ فتح و نصرت اور غلبہ و استیلاء کی نعمت۔ اسی لئے علامہ قاشانی کہتے ہیں کہ مصیبت و بلا اللہ پاک ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کے کوڑوں میں سے ایک کوڑا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے بندوں کے تصفیہ باطن اور تزکیہ قلوب کا سامان کرتا ہے۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ سبحان اللہ ۔ کیا کہنے رب رحمن و رحیم کی اس رحمت بیکراں اور عنایت بےنہایت کے۔ جس سے وہ اپنی اشرف المخلوقات مخلوق حضرت انسان کو نوازتا ہے۔ اور اس طور پر کہ انسان، ہاں اس ناشکرے انسان کو اس کی خبر و احساس بھی نہیں۔ اور وہ اس سے غافل و بےبہرہ بلکہ منکر تک ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ مگر اس کے باوجود وہ مہربان مطلق اس کو اپنی رحمت سے محروم نہیں کرتا بلکہ نوازے ہی جاتا ہے کہ اس کی شان ہی نوازنا اور کرم فرمانا ہے اور مسلسل اور ہمیشہ نوازنا ۔ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی ۔ جَلَّ جَلَالُہَ وَعَمَّ نَوَالُہٗ ۔ پس بندے کا کام ہے کہ ہمیشہ اس کی طرف رجوع رہے ۔ وباللہ التوفیق - 327 اللہ تعالیٰ کے کمال علم کا ایک نمونہ و ذکر : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ سینوں کے بھیدوں کو بھی پوری طرح جانتا ہے : پس وہی ہے جو پوری طرح جانتا ہے کہ دلوں کے روگ کیا ہیں اور ان کا علاج کیا ہوسکتا ہے اور کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ اور کس کیلئے کیا چیز مفید ہے اور کیا مضر۔ اور کب اور کس شکل و صورت میں مفید یا مضر ہوسکتی ہے۔ وہ ان سب باتوں کو جانتا اور پوری طرح جانتا ہے۔ اس کو کسی امتحان وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ جو اپنے بندوں کو ابتلاء و آزمائش میں ڈالتا ہے تو اس میں دوسری مختلف حکمتیں مخفی و مضمر ہوتی ہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ یہیں سے اس بات کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس قدر غلط کار اور الٹی سوچ کے ہیں وہ لوگ جو اس خالق ومالک وحدہٗ لاشریک کو دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کر کے اس کے لئے طرح طرح کے وہمی اور فرضی وسیلے اور واسطے گھڑتے اور فرض کرتے ہیں۔ اور اس طرح وہ طرح طرح کی شرکیات کے دروازے کھولتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ بھلا جو ذات دلوں میں چھپے رازوں کو بھی پوری طرح جانتی ہے اس کو دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کرنا کس طرح درست ہوسکتا ہے ۔ والْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم -
Top