Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 13
وَ اِذْ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا١ۚ وَ یَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَةٌ١ۛؕ وَ مَا هِیَ بِعَوْرَةٍ١ۛۚ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا
وَاِذْ : اور جب قَالَتْ : کہا طَّآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے يٰٓاَهْلَ يَثْرِبَ : اے یثرت (مدینہ) والو لَا مُقَامَ : کوئی جگہ نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَارْجِعُوْا ۚ : لہذا تم لوٹ چلو وَيَسْتَاْذِنُ : اور اجازت مانگتا تھا فَرِيْقٌ : ایک گروہ مِّنْهُمُ : ان میں سے النَّبِيَّ : نبی سے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے اِنَّ : بیشک بُيُوْتَنَا : ہمارے گھر عَوْرَةٌ ړ : غیر محفوظ وَمَا هِىَ : حالانکہ وہ نہیں بِعَوْرَةٍ ڔ : غیر محفوظ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے اِلَّا : مگر (صرف) فِرَارًا : فرار
اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ اے یثرب کے لوگو ! تمہارے لئے اب یہاں ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں پس تم لوٹ چلو اور ان میں سے ایک اور گروہ نبی سے اجازت مانگ رہا تھا (اس بہانے سے) کہ ہمارے گھر خطرے میں ہیں حالانکہ وہ ایسے کسی خطرے میں نہیں تھے یہ لوگ محض بھاگنا چاہتے تھے
25 " یثرب " کا معنیٰ و مفہوم ؟ : " یثرب " مدینہ منورہ کا پرانا نام تھا جو ثرب سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنیٰ خرابی اور مصیبت و بیماری وغیرہ کے آتے ہیں۔ اسی سے " تثریب " بنا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی ہجرت مدینہ اور آپکی وہاں تشریف آوری سے پہلے چونکہ یہ جگہ خرابی و فساد کی جگہ ہوتی تھی اس لئے اس کو " یثرب " کہا جاتا تھا۔ اور یہاں کا بخار تو بڑا مشہور بخار تھا۔ مگر آنحضرت ۔ ﷺ ۔ کی ہجرت اور اس خطے میں آپ ﷺ کی تشریف آوری کے بعد یہ خطہ امن و سلامتی کا خطہ، رحمت و عنایت خداوندی کا گہوارہ اور خیر و برکت کا مرکز بن گیا۔ اس لیے اس کا نام " یثرب " کی بجائے " طابہ " اور " طیبہ " پڑگیا۔ اور یہ " مدینۃ النبی "، " مدینہ الرسول " اور " المدینۃ المنورہ " مشہور ہوگیا۔ اور یہ اس کا اسم علم بن گیا۔ اور پوری روئے زمین میں صرف اسی بقعہ مبارکہ کا نام " المدنیۃ " پڑگیا۔ حالانکہ لغت کے اعتبار سے مدینہ ہر شہر کو کہا جاسکتا ہے۔ لہذا اب اس کو ٰٰ " یثرب " کہنا جائز نہیں۔ بہرکیف یہاں پر اس سے منافقین کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر فرمایا جا رہا ہے اور قرینے کی دلیل سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ اشارہ ان منافقینِ اَعراب کی طرف ہے جو مدینے کے قرب و جوار کے دیہاتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ لوگ اسلام تو لے آئے تھے لیکن ان میں ایک گروہ نہایت کٹر منافقین کا تھا جن کے بارے میں خود قرآن کہتا ہے ۔ { اَشَدُّ کُفْرًا وَّ نِفَاقًا } ۔ سو آیات کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کے کردار پر تبصرہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کفر و نفاق کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 26 منافقوں کی مفسدانہ کاروائیوں کا ایک نمونہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ان لوگوں نے اپنے گروپ کے لوگوں سے کہا کہ یثرب والو اب تم لوگوں کیلئے یہاں ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں پس تم لوٹ جاؤ "۔ یعنی اب محاذ جنگ پر ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں۔ لہذا تم لوگ اپنے گھروں کو واپس چلو۔ ظاہری معنیٰ تو یہ ہوئے مگر اندر اندر سے یہ لوگ دراصل یہ کہتے تھے کہ اب تم اپنے پرانے دین ہی کی طرف واپس ہوجاؤ کہ اب اس نئے دین میں رہنے کا تمہارے لیے کوئی مقام نہیں۔ اور ذومعنیین لفظ بولنا تو ان لوگوں کا طرئہ امتیاز اور پرانا وطیرہ تھا۔ تاکہ اس طرح یہ لوگ اپنے اپنے مقاصد خبیثہ کی تکمیل کرسکیں۔ سو نفاق اور ضعف ایمانی کے شکار ان لوگوں نے " اہل المدینۃ " کی بجائے " اہل یثرب " کہہ کر اپنے باطن کی اس کیفیت کا اظہار کردیا کہ اس شہر کے نئے نام یعنی " المدینۃ " کو قبول نہیں کیا تھا۔ شاید یہ لوگ ابھی تک اس گمان میں مبتلا رہے ہوں کہ اس شہر پر اسلام اور مسلمانوں کا قبضہ عارضی ہے۔ سابقہ حالات پھر لوٹ آئیں گے۔ سو اس خطاب کا حوالہ دیکر قرآن حکیم نے ایسے لوگوں کے باطن سے پردہ اٹھا دیا۔ اور یہی نتیجہ ہوتا ہے ایمان و یقین کی قوت سے محرومی کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس ارشاد سے منافقوں کی مفسدانہ کاروائیوں کا ایک نمونہ پیش کردیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ کفر ونفاق کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔ 27 منافق لوگوں کی حیلہ بازیوں کا ایک نمونہ و مظہر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ان میں سے ایک اور گروہ پیغمبر سے اجازت مانگتا ہے کہ ہمارے گھر خطرے میں ہیں حالانکہ وہ اس طرح کسی خطرے میں نہیں "۔ یہ لوگ تو محض بھاگنا جانتے ہیں۔ یعنی ایسا کوئی خاص خطرہ وہاں نہیں تھا جو خاص طور پر انہی کو لاحق ہوتا دوسروں کو نہ ہوتا۔ یہ لوگ تو محض بھاگنا چاہتے تھے ورنہ ان کے گھروں کا حال بھی ویسے ہی تھا جیسے دوسروں کا تھا۔ اور سب کی صورت حال ایک ہی جیسی تھی۔ بہرکیف اس ارشاد میں منافقین کے ایک دوسرے گروہ کے کردار کا ذکر فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ نبی ﷺ کے سامنے یہ عذر اور بہانہ پیش کرکے اجازت مانگتے تھے کہ چونکہ ہمارے گھر تنہا اور غیر محفوظ ہیں، اس لیے ہمیں واپس جانے کی اجازت دی جائے۔ سو پہلے گروہ نے مدینے والوں کو پست ہمت کرکے محاذ جنگ سے ہٹانے کی کوشش کی اور اب اس دوسرے گروہ نے اپنے لیے راہ فرار تلاش کرنے کی تدابیر کی تاکہ میدان دشمن کیلئے بالکل صاف ہوجائے اور ان کا یہ قول کہ " ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں " اس بات کا قرینہ ہے کہ ان لوگوں کا تعلق اطراف مدینہ سے تھا۔ اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ یہ اپنے کفر و نفاق میں بڑے سخت ہیں۔
Top