Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 13
وَ اِذْ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا١ۚ وَ یَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَةٌ١ۛؕ وَ مَا هِیَ بِعَوْرَةٍ١ۛۚ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا
وَاِذْ : اور جب قَالَتْ : کہا طَّآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے يٰٓاَهْلَ يَثْرِبَ : اے یثرت (مدینہ) والو لَا مُقَامَ : کوئی جگہ نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَارْجِعُوْا ۚ : لہذا تم لوٹ چلو وَيَسْتَاْذِنُ : اور اجازت مانگتا تھا فَرِيْقٌ : ایک گروہ مِّنْهُمُ : ان میں سے النَّبِيَّ : نبی سے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے اِنَّ : بیشک بُيُوْتَنَا : ہمارے گھر عَوْرَةٌ ړ : غیر محفوظ وَمَا هِىَ : حالانکہ وہ نہیں بِعَوْرَةٍ ڔ : غیر محفوظ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے اِلَّا : مگر (صرف) فِرَارًا : فرار
اور یہ (اس وقت ہوا) جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا،27۔ اے یثرب کے لوگو تمہارے ٹھہرنے کا موقع نہیں، سو (اپنے گھروں کو) واپس جاؤ،28۔ اور بعض لوگ ان میں سے نبی سے اجازت مانگتے تھے، کہتے تھے کہ ہمارا گھر غیر محفوظ ہیں، حالانکہ وہ ذرا بھی غیر محفوظ نہیں ہیں، یہ محض بھاگنا ہی چاہتے ہیں،29۔
27۔ یعنی جب انہیں منافقین میں سے بعض لوگوں نے دوسروں کو مخاطب کرکے جنگ کے مورچوں پر کہا (آیت) ” منھم “۔ ضمیر انہیں لوگوں کی طرف ہے جن کا ذکر ابھی ابھی آچکا ہے۔ (آیت) ” المنفقون والذین فی قلوبھم مرض “۔ 28۔ (کہ اب مورچوں پر جمے رہنا صریحا موت کے منہ میں جانا ہے) (آیت) ” یثرب “۔ مدینہ کا پرانا نام ہے۔ مدینۃ النبی تو ہجرت نبوی کے بعد نام پڑا۔ 29۔ بعض کج دلے اور منافق۔ سالاراعظم ﷺ کی خدمت میں آکر طرح طرح کے بہانے تراشتے تھے، اور یہ کہتے تھے کہ ہم اپنے گھروں کو غیر محفوظ حالت میں چھوڑ آئے۔ اور صرف عورتیں اور بچے ہیں، چوروں ڈاکوؤں کا ہر وقت خطرہ ہے۔ قرآن مجید جواب دیتا ہے کہ یہ عذرات ان کے گڑھے ہوئے ہیں۔ ان کے گھر خود ان کے خیال میں بھی غیر محفوظ نہیں۔ اور نہ ان کی جانے سے یہ نیت ہے کہ انتظام کرکے پھر چلے آئیں گے، یہ تو بس جنگ سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ (آیت) ” عورۃ “۔ یہاں ذات ” عورۃ “۔ کے معنی میں ہے۔ یعنی شگاف زدہ جس کے اندرداخلہ ممکن ہو۔ والعورۃ ذات العورۃ (کشاف) اے متخرقۃ ممکنۃ لمن ارادھا (راغب) (آیت) ” وماھی بعورۃ “۔ قرآن مجید میں یہ ترکیب جہاں جہاں بھی آئی ہے۔ اس وصف کی نفی کامل مراد رہی ہے۔ (آیت) ” وما ھم بمومنین “۔ ان میں ایمان ذرا بھی نہیں ہے) (آیت) ” وما ربک بظلام للعبید “۔ (آپ کا پروردگار بندوں کے حق میں ذرا سا بھی ظالم نہیں ہے)
Top