Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 60
لَئِنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا٤ۖۛۚ
لَئِنْ : اگر لَّمْ يَنْتَهِ : باز نہ آئے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : روگ وَّالْمُرْجِفُوْنَ : اور جھوٹی افواہیں اڑانے والے فِي : میں الْمَدِيْنَةِ : مدینہ لَنُغْرِيَنَّكَ : ہم ضرور تمہیں پیچے لگا دیں گے بِهِمْ : ان کے ثُمَّ : پھر لَا يُجَاوِرُوْنَكَ : تمہارے ہمسایہ نہ رہیں گے وہ فِيْهَآ : اس (شہر) میں اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند دن
اگر باز نہ آئے منافق لوگ (اپنی بری حرکتوں سے) اور وہ لوگ جن کے دل میں روگ ہے (شہوت پرستی اور چھیڑ خانی کا) اور ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے مدینے میں (اگر یہ لوگ باز نہ آئے اپنی ان حرکتوں سے) تو ہم آپ کو ان پر ایسی سختی سے مسلط کردیں گے کہ پھر یہ لوگ آپ کے ساتھ مدینہ میں رہنے بھی نہ پائیں گے مگر بہت کم
127 اَشرار و منافقین کو آخری اور کھلی تنبیہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اگر باز نہ آئے یہ منافق اور وہ لوگ جنکے دلوں کے اندر روگ ہے تو ہم آپ کو ان پر ایسا مسلط کردیں گے کہ اس کے بعد یہ لوگ آپ کے ساتھ مدینے میں نہیں رہ سکیں گے مگر بہت تھوڑا "۔ اور مرض سے یہاں پر مراد زنا اور بدکاری کا مرض ہے جو کہ معاشرے کے امن و استقرار کو تباہ کردینے والا مرض اور خطرناک روگ ہے ۔ " وہم الزناۃ " ۔ (المراغی، الصفوۃ، ابن کثیر) ۔ اَہْلُ الرَّیْبِ الذِیْنَ غَلَبَتْہُمْ شَہْوَاتُہُمْ وَرَکَنُوْا اِلَي الْخَلاعَۃ والفجور۔ (جامع البیان) ۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ زنا کاری اور شہوت پرستی دلوں کا روگ اور فتنہ و فساد کی جڑ بنیاد ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور جب دل روگی اور مریض ہوگیا تو باقی کیا رہ گیا کہ سلطنت جسم کا حاکم و بادشاہ تو دل ہی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور بعض اہل علم کے نزدیک مرض سے یہاں پر مراد حسد، کینہ اور بغض وعناد کا مرض ہے۔ سو منافقین کا یہ گروہ صرف نفاق اور ضعف عزم و ارادہ ہی کا مریض نہیں تھا بلکہ ان لوگوں کو پیغمبر اور اسلام اور مسلمانوں پر سخت حسد بھی تھا۔ مگر اپنی معروف بزدلی کے باعث یہ لوگ دوسرے کفار کی طرح کھلم کھلا مخالفت کرنے کی بجائے مسلمانوں کے اندر گھس کر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے تھے۔ مرض کا عموم بہرکیف ان سب ہی معانی و مفاہیم کو عام اور ان کو شامل ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔ 128 افواہ طرازوں کو بھی تنبیہ : سو منافقوں اور دل کے روگیوں کے ساتھ ساتھ افواہ طرازوں کا بھی اس تنبیہ میں ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا " اور ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے بھی "۔ یعنی وہ لوگ جو مسلمانوں کو پریشان کرنے، ان میں افراتفری پھیلانے اور ان کے عزائم کو پست کرنے اور حوصلے توڑنے کے لئے طرح طرح کی افواہیں گھڑتے، اڑاتے، اور جھوٹی خبریں پھیلاتے رہتے ہیں۔ اور یہ لفظ " رجفۃ " سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ " زلزلہ " کے ہیں۔ چونکہ ایسی خبریں بےبنیاد ہوتی ہیں اور وہ لوگوں کے درمیان اضطراب اور بےچینی پیدا کرتی ہیں اس لئے ان کو " اَرَاجِیْف " کہا گیا ہے ۔ اَیْ الذین ینشرون الأراجیف والاکاذیب لِبَلْبَلَۃ الافْکَارِ وخَلْخَلَۃِ الصُّفُوْفُ و نَشْرِ اَخْبَار السُّوء ۔ (صفوہ، مدارک، محاسن، ابن کثیر، اور مراغی وغیرہ) ۔ سو اس سے افواہیں پھیلانے کی خطورت و سنگینی کی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے صحیح حدیث میں ہر سنی سنائی بات کو آگے چلانے اور پھیلانے سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔ بہرکیف اس سے ایسے اشرار و منافقین کو خبردار فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو آئندہ انکے بارے میں مسامحت اور چشم پوشی کا وہ رویہ جو اب تک رہا ہے یکسر بدل دیا جائے گا۔ اور آپ کو ۔ اے پیغمبر !۔ ہر قدم پر انکے تعاقب اور محاسبے کا حکم دے دیں گے۔ پھر ان کو اس شہر میں بہت کم رہنا نصیب ہوگا۔ اور اس کے بعد یہ لوگ جتنا بھی جییں گے ملعون ہو کر جییں گے۔ ہر قدم اور ہر موقع پر ان کو پکڑا جائے گا اور انکو عبرتناک طریقوں سے قتل کیا جائے گا۔ چناچہ بعد میں ان منافقوں کو ایسے ہی حشر سے دوچار ہونا پڑا۔ سو کفر ونفاق محرومیوں کی محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top