Tafseer-e-Haqqani - At-Tawba : 84
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ١ؕ قُلْ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَنِیَ اللّٰهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖۤ اَوْ اَرَادَنِیْ بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكٰتُ رَحْمَتِهٖ١ؕ قُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ١ؕ عَلَیْهِ یَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُوْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر سَاَلْتَهُمْ : تم پوچھو ان سے مَّنْ : کون۔ کس خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے اللّٰهُ ۭ : اللہ قُلْ : فرمادیں اَفَرَءَيْتُمْ : کیا پس دیکھا تم نے مَّا تَدْعُوْنَ : جن کو تم پکارتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے اِنْ : اگر اَرَادَنِيَ : چاہے میرے لیے اللّٰهُ : اللہ بِضُرٍّ : کوئی ضرر هَلْ : کیا هُنَّ : وہ سب كٰشِفٰتُ : دور کرنے والے ہیں ضُرِّهٖٓ : اس کا ضرر اَوْ : یا اَرَادَنِيْ : وہ چاہے میرے لیے بِرَحْمَةٍ : کوئی رحمت هَلْ : کیا هُنَّ : وہ سب مُمْسِكٰتُ : روکنے والے ہیں رَحْمَتِهٖ ۭ : اس کی رحمت قُلْ : فرما دیں حَسْبِيَ اللّٰهُ ۭ : کافی ہے میرے لیے اللہ عَلَيْهِ : اس پر يَتَوَكَّلُ : بھروسہ کرتے ہیں الْمُتَوَكِّلُوْنَ : بھروسہ کرنے والے
اور جو کوئی ان میں سے مرجاوے تو (اے نبی ! ) کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر جا کر کھڑے ہونا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور وہ بدکاری کرتے کرتے مرگئے
ترکیب : منہم ومات دونوں احد کی صفت ہیں ابدا ظرف ہے لاتصل کا اذا انزلت شرط استاذن جواب۔ خوالف جمع خالفۃ ہے المراۃ لھم اعد سے متعلق جنت موصوف تجری الخ صفت خالدین حال ہے ضمیر لہم سے۔ تفسیر : پہلی آیتوں میں منافقین کے لئے آنحضرت ﷺ کو استغفار سے منع کیا تھا اب یہاں ان کی نماز جنازہ اور ان کی قبر پر دعا کے لئے کھڑا ہونے سے بھی منع فرماتا ہے جو انسان کے لئے نجات کا بڑا وسیلہ تھا یعنی مغفرت اور رسول کی شفاعت کے دائرہ سے خارج کردیا گیا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین مرگیا تو آنحضرت ﷺ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے لوگوں نے بلایا۔ آپ پڑھنے کو کھڑے ہوئے تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔ آپ اس کی نماز نہ پڑھیے ٗ ہٹ آیئے۔ آپ نے فرمایا مجھ کو اختیار دیا گیا ہے اور اگر یہ معلوم ہو کہ میرے ستر بار سے زیادہ استغفار کرنے سے اللہ اس کو بخش دے گا تو میں اس سے بھی زیادہ استغفار کرتا۔ آپ نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد یہ آیت ولاتصل الخ نازل ہوئی۔ آنحضرت ﷺ کو ایک تو یہ بات منظور تھی کہ منافقوں پر یہ حال کھل جائے کہ ان کا سردار خواستگار شفاعت ہوا جس سے ان کے دل میں بھی اسلام کی حقیقت راسخ ہوگئی۔ دوسرے یہ کہ نفاق کی رسوائی ہو کہ ان پر نماز و استغفار کا بھی حکم الٰہی نہیں۔ ولا تعجبک اموالہم یہاں سے لایفقہون تک ان کے مال و اسباب و اولاد کی بےثباتی اور دار آخرت میں کارآمد نہ ہونا اور دنیا میں مصیبت کا سبب ہوجانا بیان فرماتا ہے اور غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں پر عتاب ظاہر کرتا ہے۔ اولاد و مال کا وبال ہونا اہل عقل پر مخفی نہیں۔ بہت سے آدمیوں کو اولاد و مال کے وبال میں گرفتار دیکھا ہے۔ اولاد کو پالا اور پرورش کیا جب وہ کسی لائق ہوئے یا بات چیت کرنے لگے۔ طوطے کی طرح بولتے بولتے چل دیے اب ماں باپ کے دل کا ناسور ہے کہ رات دن آنکھوں سے غم کے آنسو جاری ہیں۔ دنیا سیاہ ہوگئی یا وہ ہوشیار ہو کر آوارہ اور بدچلن ہوئے۔ ماں باپ کی جان کے لیوا خون کے پیاسے ‘ الٰہی توبہ اسی طرح مال کا حال ہے کہ کوئی مصیبت آپڑی تو اس کو یاد کرکے عمر بھرروتے ہیں اور اگر یہ کچھ نہیں تو یہ تو ضرور ہے کہ ان کی محبت میں دل چور ہے مرتے وقت ہر چیز کو آنکھ پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہے۔ مولیٰ سے غافل ہو کر مرنا اور داغ مفارقت دینا ساتھ لے کرجاتا ہے۔
Top