Tafseer-e-Madani - At-Tur : 58
فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِاٰیٰتِنَاۤ اِذَا هُمْ مِّنْهَا یَضْحَكُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَهُمْ : وہ لایا ان کے پاس بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیات ۔ نشانیاں اِذَا هُمْ : تب وہ مِّنْهَا : ان پر۔ سے يَضْحَكُوْنَ : ہنستے تھے
مگر جب آپ پہنچ گئے ان لوگوں کے پاس ہماری ان نشانیوں کے ساتھ تو وہ لوگ چھوٹتے ہی ان کی ہنسی اڑانے لگے
63 فرعونیوں کی طرف سے حضرت موسیٰ کی تضحیک : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جب موسیٰ ہماری ان نشانیوں کے ساتھ فرعونیوں کے پاس پہنچ گئے تو وہ لوگ چھوٹتے ہی ہماری آیتوں کی ہنسی اڑانے لگے "۔ اپنی دنیاداری اور مصنوعی بڑائی کے گھمنڈ میں۔ سو اہل حق کے مقابلے میں اہل باطل کا طریقہ و وطیرہ اور عمل و سلوک ہمیشہ یہی رہا۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ چناچہ آج بھی آپ دیکھیں گے کہ کتنے ہی اہل باطل ایسے ہوں گے جو اہل حق کا ان کی ڈاڑھیوں کی بنا پر ان کی وضع قطع کو دیکھ کر اور ان کی چال ڈھال وغیرہ کا نت نئے طریقوں سے مذاق اڑائیں گے۔ پس اس ارشاد ربانی میں آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے توسط سے آپ ﷺ کی امت کے ہر داعی حق کے لئے صبر و استقامت اور تسلی و اطمینان کا سامان ہے کہ آپ کے ساتھ اہل باطل جو سلوک آج کر رہے ہیں وہ کوئی نئی اور انوکھی چیز نہیں۔ بلکہ اس سے پہلے بھی یہی کچھ ہوتا چلا آیا ہے۔ مگر اللہ پاک کی نصرت و امداد ہمیشہ اہل حق ہی کے ساتھ رہی۔ اور آخری جیت بھی ہمیشہ انہی کی ہوئی۔ اور اہل ظلم و طغیان وباطل آخرکار اپنے اس انجام کو پہنچ کر رہے جس کے وہ مستحق تھے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعَبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ ، اِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ ، وَاِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغَالِبُوْنَ } ۔ (الصافات :171- 173) ۔ بہرکیف فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ان نشانیوں کو دیکھ کر انکا مذاق اڑایا کہ یہ کیا نشانیاں ہیں۔ یہ تو ساحری اور جادوگری کے کرشمے ہیں۔ اور ہمارے پاس ایسے ماہر جادوگر ہیں جو ان سے بڑھ کر کرتب دکھا سکتے ہیں۔ اور اس طرح وہ لوگ اپنے کبر و غرور میں اور سخت اور اپنی بدبختی میں مزید پکے ہوگئے ۔ والعیاذ باللہ -
Top