Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 58
قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ لَقُضِیَ الْاَمْرُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِمِیْنَ
قُلْ : کہ دیں لَّوْ : اگر اَنَّ : ہوتی عِنْدِيْ : میرے پاس مَا : جو تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی کرتے ہو بِهٖ : اس کی لَقُضِيَ : البتہ ہوچکا ہوتا الْاَمْرُ : فیصلہ بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جاننے والا بِالظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو
کہہ دو کہ اگر وہ چیز میرے پاس ہوتی جس کے لیے تم جلدی مچائے ہوئے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان جھگڑے کا فیصلہ ہوچکا ہوتا اور اللہ ظالموں سے خوب باخبر ہے۔
‘ ما عندی ما تستعلجلون بہ ’ سو یہ عذاب، جس کے لیے تم جلدی مچائے ہوئے ہو، میرے پاس نہیں ہے۔ اس معاملہ کا فیصلہ کرنا خدا ہی کے اختیار میں ہے، میں جو کچھ کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ حق کو واضح اور اس نزاع کا فیصلہ کرے گا اور نہایت بہتر طریقہ پر فیصلہ کرے گا وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ اگر وہ چیز جس کے لیے تم جلدی مچائے ہوئے میرے اختیار میں ہوتی تو میرے اور تمہارے درمیان جھگڑے کا فیصلہ ہوجاتا۔ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِمِيْنَ میں دو پہلو ہیں۔ ایک تو ان کفار کے لیے دھمکی ہے کہ خدا ان ظالموں سے خوب باخبر ہے چناچہ وہ ان کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کے وہ مستحق ہیں۔ دوسرا پہلو اس میں تفویض کا ہے کہ خدا ان ظالموں سے خوب واقف ہے، پس ان کا معاملہ اسی کے حوالے ہے۔ یہاں ظلم سے مراد اپنی جان پر ظلم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں۔ خدا ان کو اپنی رحمت دے رہا ہے لیکن یہ اس کے عذاب کے طالب ہیں۔ ان کو روٹی دی جا رہی ہے لیکن یہ پتھر مانگتے ہیں۔ ان کو مچھلی عنایت ہوئی ہے مگر یہ سانپ پکڑنے کے درپے ہیں۔
Top