Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 58
قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ لَقُضِیَ الْاَمْرُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِمِیْنَ
قُلْ : کہ دیں لَّوْ : اگر اَنَّ : ہوتی عِنْدِيْ : میرے پاس مَا : جو تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی کرتے ہو بِهٖ : اس کی لَقُضِيَ : البتہ ہوچکا ہوتا الْاَمْرُ : فیصلہ بَيْنِيْ : میرے درمیان وَبَيْنَكُمْ : اور تمہارے درمیان وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جاننے والا بِالظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو
کہہ دو کہ جس چیز کے لئے تم جلدی کر رہے ہو اگر وہ میرے اختیار میں ہوتی تو مجھ میں اور تم میں فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ اور خدا ظالموں سے خوب واقف ہے
قل لو ان عندی ما تستجعلون بہ اے محمد ﷺ ۔ آپ کہہ دیجئے کہ بالفرض اگر میری قدرت میں وہ عذاب اور قیامت کو لانا جس کی تم جلدی مچا رہے ہو ہوتا۔ لقضی الامر بینی وبینکم تو میرا اور تمہارا قصہ فیصل ہوچکا ہوتا۔ یعنی عذاب آ چکتا اور تم ہلاک ہو چکتے اور میرا تمہارا جھگڑا ہی نمٹ جاتا یا یہ مطلب ہے کہ آج ہی قیامت بپا ہوجاتی ‘ حق و باطل کا فیصلہ ہوجاتا اور میرے تمہارے درمیانی جھگڑے کا فیصلہ جو قیامت میں ہونے والا ہے وہ آج ہی طے ہوجاتا۔ اللہ نے فرمایا ہے (ثُمَّ اِلَیْہِ مَرْجِعْکُمْ ثُمَّ یَحْکُمْ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ ) ۔ اس آیت میں باہمی جھگڑا چکانے کا مبہم طور پر ذکر کردیا گیا ہے لیکن تعیین کے ساتھ یہ نہیں بتایا کہ عذاب میں مبتلا کون فریق ہوگا اس کی توضیح کے لئے آگے فرمایا۔ واللہ اعلم بالظلمین اور اللہ ظالموں (بےجا حرکات کرنے والے ناحق کو شوں یعنی کافروں) کو خوب جانتا ہے پس انہی کو اپنی حکمت کے زیر اقتضاء تباہ کرے گا۔
Top