Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 55
فَلَمَّاۤ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ
فَلَمَّآ : تو جب اٰسَفُوْنَا : وہ غصے میں لائے انْتَقَمْنَا : انتقام لیا ہم نے مِنْهُمْ : ان سے فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِيْنَ : تو غرق کردیا ہم نے ان سب کو
سو جب یہ لوگ ہمیں (ناراض کرتے اور) غصہ ہی دلاتے گئے تو آخرکار ہم نے ان سے انتقام (اور بدلہ) لیا (ان کے اس سنگین جرم کا) سو ہم نے غرق کردیا ان سب کو
75 فرعون اور اس کی قوم کے ہولناک انجام کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " آخرکار ہم نے ان سے انتقام لیا اور غرق کردیا ان سب کو "۔ اسی پانی کی موجوں میں جس کی نہروں پر وہ لوگ فخر جتلایا کرتے تھے۔ اور اسی بنا پر وہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے تھے۔ اور یہ اس لئے بھی کہ انہوں نے خود اپنے آپ کو کفر و معصیت اور عناد و سرکشی کے سمندر میں غرق کردیا تھا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ فرعون چونکہ اپنے اعیان و اَنصار اور پورے لاؤ لشکر سمیت بنی اسرائیل کے تعاقب میں نکلا تھا اور وہ ان سب کو لیکر خود جاکر اس مقام پر پہنچا تھا جہاں اس کو اپنے انجام کو پہنچنا تھا۔ سو وہ سب وہاں غرق ہوئے۔ سو اس سے ایک بات تو یہ واضح ہوجاتی ہے کہ انکار و تکذیبِ حق کا نتیجہ و انجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے۔ ایسوں کو ڈھیل جتنی بھی ملے وہ بہرحال ڈھیل ہی ہوتی ہے جس نے آخرکار ختم ہو کر رہنا ہوتا ہے۔ اور ایسے منکر اور باغی لوگ اپنے انجام کو بہرحال پہنچ کر رہتے ہیں۔ اور دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ ایسے بدبختوں کو ان کے آخری انجام سے دوچار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی بےآواز لاٹھی جب حرکت میں آتی ہے تو ایسے لوگ اپنی قتل گاہوں میں خود چل کر پہنچتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top