Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 56
فَجَعَلْنٰهُمْ سَلَفًا وَّ مَثَلًا لِّلْاٰخِرِیْنَ۠   ۧ
فَجَعَلْنٰهُمْ : تو بنادیا ہم نے ان کو سَلَفًا : پیش رو وَّمَثَلًا : اور ایک مثال لِّلْاٰخِرِيْنَ : بعد والوں کے لیے
ہم نے ان کو ایک قصہ پارینہ اور نمونہ عبرت بنادیا پچھلوں کے لئے
76 انجام کار فرعون ایک قصہ پارینہ ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ انجام کار فرعون اپنی قوم سمیت ایک قصہ پارینہ بن کر رہ گیا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم نے انکو ایک قصہ پارینہ بنادیا "۔ سو اب ان بدبختوں کا ذکر و وجود یا تو کہیں کتابوں کے اوراق و صفحات میں مل سکے گا یا ان آثار و نشانات اور کھنڈرات کی صورت میں جو اپنی زبان حال سے ان کی داستان عبرت سناتے ہیں۔ کہ یہ ہوتا ہے آخری انجام حق کی تکذیب و انکار کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سلف کے معنیٰ گزرنے کے ہیں۔ اور یہیں سے یہ لفظ گزرے ہوئے لوگوں کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اور سلف اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ اور یہاں یہ برے معنوں ہی کیلئے استعمال فرمایا گیا ہے۔ یعنی ہم نے انکو اس طرح صفحہ ہستی سے ہمیشہ کیلئے مٹا دیا۔ اور اس طرح یہ لوگ ایک افسانہ ماضی اور قصہ پارینہ بن کر رہ گئے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا ۔ { وَجَعَلْنَاہُمْ اَحَادِیْثَ وَمَزَّقْنَاہُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ } ۔ ( سبا : 19) ۔ سو اس میں دور حاضر کے اور اس کے بعد کے آنے والے تمام منکرین کیلئے یہ درس عبرت و بصیرت ہے کہ ان لوگوں نے اگر انہی کی روش اختیار کی تو انکا انجام بھی وہی ہوگا جو کل کے ان منکروں اور باغیوں اور سرکشوں کا ہوچکا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کا قانون عدل و انصاف سب کیلئے ایک اور یکساں و بےلاگ ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنے حفظ وامان میں رکھے اور ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین - 77 فرعونیوں کا انجام نمونہ عبرت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ان کو ہم نے ایک نمونہ عبرت بنادیا پچھلوں کے لیے " تاکہ انکو پتہ چلے کہ حق کے انکار اور اہل حق سے بغض وعناد اور ظلم و طغیان کا نتیجہ و انجام کس قدر بھیانک اور کتنا ہولناک ہوتا ہے۔ اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اصل عذاب تو آخرت کا ہے جو اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ " مثل " کے معنیٰ مثال اور نمونے کے آتے ہیں۔ اور مثال بھی سلف کی طرح اچھی اور بری دونوں صورتوں میں ہوسکتی ہے۔ یہاں پر یہ برے مفہوم میں ہے۔ اس لیے اس کے معنیٰ نمونہ عبرت کے ہیں۔ یعنی ہم نے انکو دوسروں کیلئے مثال اور نمونہ عبرت بنادیا کہ حق سے منہ موڑنے اور اس کے مقابلے میں اعراض و استکبار سے کام لینے کا آخری نتیجہ و انجام یہی ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ایسے لوگوں کو جتنی بھی ڈھیل ملے انکا آخری انجام بہرحال نہایت ہی ہولناک، عبرت انگیز اور انتہائی المناک ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو بندے کا اصل کام اور اس کا مرتبہ و مقام اس میں ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کے سامنے اور اس کے حضور اپنی شان عبدیت میں کمال پیدا کرے۔ اور اسی کا بندہ بن کر رہے۔ اور اسی کی رضا و خوشنودی کے حصول اور اس سے سرفرازی کو اپنا نصب العین اور مقصد حیات بنائے۔ نہ کہ استکبار اور اکڑنے کی راہ کو اپنائے کہ یہ اس کے لیے ہلاکت و تباہی کی راہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور رب کی رضا و خوشنودی سے سرفرازی اور کمال عبدیت کے حصول کا ذریعہ و وسیلہ یہ ہے کہ ان تعلیمات مقدسہ کو صدق دل سے اپنایا جائے اور ان کی اتباع اور پیروی کی جائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے انبیاء و رسل کے ذریعے ملتی ہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top