Tafseer-e-Madani - Al-Hujuraat : 9
وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا١ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِ١ۚ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر طَآئِفَتٰنِ : دو گروہ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے، کے اقْتَتَلُوْا : باہم لڑپڑیں فَاَصْلِحُوْا : توصلح کرادو تم بَيْنَهُمَا ۚ : ان دونوں کے درمیان فَاِنْۢ : پھر اگر بَغَتْ : زیادتی کرے اِحْدٰىهُمَا : ان دونوں میں سے ایک عَلَي الْاُخْرٰى : دوسرے پر فَقَاتِلُوا : تو تم لڑو الَّتِيْ : اس سے جو تَبْغِيْ : زیادتی کرتا ہے حَتّٰى : یہاں تک کہ تَفِيْٓءَ : رجوع کرے اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ : حکم الہی کی طرف فَاِنْ : پھر اگر جب فَآءَتْ : وہ رجوع کرلے فَاَصْلِحُوْا : تو صلح کرادو تم بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان بِالْعَدْلِ : عدل کے ساتھ وَاَقْسِطُوْا ۭ : اور تم انصاف کیا کرو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُقْسِطِيْنَ : انصاف کرنے والے
اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو تم ان کے درمیان صلح کرا دیا کرو پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو تم اس سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی طرف پھر اگر وہ لوٹ آئے پس تم صلح کرا دو ان دونوں کے درمیان عدل (و انصاف) کے ساتھ اور یوں بھی انصاف ہی کیا کرو کہ بیشک اللہ محبت کرتا ہے انصاف کرنے والوں کے ساتھ
[ 21] مسلمانوں کے درمیان باہمی لڑائی سے متعلق ہدایات : سو اس ارشاد سے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان تصادم کی صورت میں اصلاح احوال کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ارتکاب کبیرہ سے خروج عن الدین لازم نہیں آتا جس طرح کہ معتزلہ وغیرہ کہتے ہیں۔ یہاں پر قتال بین المسلمین جیسے کبیرہ کے ارتکاب کے باوجود ان دونوں گروہوں کو مومن قرار دیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ اس کی بنا پر ان سے وصف ایمان کو سلب کرلیا گیا ہو۔ والعیاذ باللّٰہ۔ چناچہ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اپنی صحیح میں معتزلہ کے خلاف اس آیت کریمہ سے یہی استدلال کیا ہے۔ بہرکیف اس میں یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان باہم تصادم اور قتال واقع ہوجائے تو حکومت وقت یا دوسرے معتبر مسلمانوں کے ذمے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان کے درمیان اصلاح کرا دیں کہ اصلاح ذات البین کی دین حق میں بڑی اہمیت ہے اور اصلاح معاشرہ کی یہ اہم بنیاد ہے۔ [ 22] مسلمانوں کے درمیان صلح و صفائی کرانے کا حکم و ارشاد : سو اس سے مسلمانوں کے درمیان لڑائی کی صورت میں صلح کرانے کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپش میں لڑپڑیں تو تم ان کے درمیان صلح کرا دیا کر "۔ ہمدردی و خیر خواہی کے ساتھ۔ اور کتاب و سنت کے حکم کی طرف بلاکر۔ خواہ وہ کسی کے حق میں جائے یا اس کے خلاف پڑے۔ معلوم ہوا کہ دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا ایک اہم اور ضروری امر ہے کہ اس کا اس طرح صاف وصریح طور پر حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اور یہ اس لئے کہ مسلمانوں کا باہمی افتراق و انتشار اور اختلاف و نزاع بہت نقصان دہ امر ہے۔ چناچہ نبی اکرم ﷺ نے فساد ذات البین یعنی آپس کے باہمی بگاڑ کو " حالقہ "۔ " مونڈھ دینے والی آفت " قرار دیا ہے۔ اور پھر فرمایا { ولا اقول انھا تحلق الشعر ولکنھا تحلق الدین }۔ یعنی " میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بالوں کو مونڈتی ہے بلکہ یہ دین کو مونڈ کر رکھ دیتی ہے " والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ صحیحین وغیرہ میں مروی ہے کہ ایک موقع پر رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول نے آنحضرت ﷺ کی شان میں یہ گستاخانہ الفاظ استعمال کیے کہ " مجھ سے دور ہوجاؤ کہ تمہارے گدھے کی بدبو سے مجھے تکلیف پہنچ رہی ہے " تو ایک انصاری صحابی نے اس کے جواب میں اس سے کہا کہ " اللہ کی قسم ! حضور ﷺ کے گدھے کی بو تم سے کہیں بڑھ کر عمدہ ہے " تو اس پر دونوں طرف سے کچھ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور نوبت جوتوں اور لاٹھیوں کے تبادلے تک پہنچ گئی۔ تو اس موقع پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور دونوں فریقوں کے درمیان صلح کرا دی گئی۔ [ ابن جریر، ابن کثیر، خازن، جامع، روح، قرطبی وغیرہ ] بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ " اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم ان کے درمیان صلح کرادیا ہرو "۔ تاکہ اس طرح فساد و بگاڑ کی راہیں بند ہو سکیں۔ [ 23] زیادتی کرنے والے گروہ کے خلاف لڑنے کا حکم و ارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے "۔ اور وہ صلح پر آمادہ نہ ہو۔ یا صلح کرنے کے بعد اس کی شرائط کی خلاف ورزی کرے۔ اور اللہ کے حکم اور اس کے فیصلے کے آگے جھکنے کو تیار نہ ہو۔ [ صفوۃ البیان وغیرہ ] یعنی یا تو وہ مصالحت پر آمادہ ہی نہ ہو یا مصالحت کے بعد اس کی شرائط پوری نہ کرے اور دوسری پارٹی پر زیادتی اور تعدی سے باز نہ آئے۔ تو ایسی صورت میں تم اس سے لڑو جو زیادتی کرے۔ سو ایسی صورت میں حکومت وقت یا دوسرے مسلمانوں کو تعدی اور زیادتی کرنے والی پارٹی سے جنگ کرنی چاہیے۔ یہاں تک کہ وہ حق کے آگے جھکنے پر مجبور ہوجائے۔ اور اس طرح فساد اور بگاڑ کے خاتمے کی راہ ہموار ہوجائے۔ سو اس میں زیادتی کرنے والے گروہ کے خلاف لڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ اس کو یونہی چھوڑ دیا جائے اور اس کو ظلم اور زیادتی کرنے کے لیے جھوٹ دے دی جائے۔ کہ اس کے نتیجے میں معاشرہ فساد و بگاڑ کا شکار ہوجائے گا والعیاذ باللّٰہ۔ سو اصلاح احوال حسب استطاعت سب کی ذمہ داری ہے۔ وباللّٰہ التوفیق۔ [ 24] باغی فرقے کے خلاف لڑائی کی حد کا ذکر وبیان : سو باغی فرقے کے خلاف لڑائی کی تحدید کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ " تم اس کے خلاف لڑو۔ یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی طرف "۔ یعنی صلح کی طرف، کہ وہ اللہ پاک کی طرف سے ایک مطلوب و مامور امر ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ { یسئلونک عن الانفال ط قل الانفال للّٰہ والرسول ج فاتقوا اللّٰہ واصلحوا ذات بینکم ص واطیعوا اللّٰہ و رسولہ ان کنتم مؤمنین } [ الانفال : 1 پ 9] بہرکیف اللہ کے حکم کی طرف لوٹنے سے مراد اس فیصلے کے آگے جھکنا ہے جو مصالحت کرانے والوں نے دونوں فریقوں کے سامنے رکھا ہو۔ سو اس کے آگے جھکنے سے گریز و فرار ایسے ہی متصور ہوگا جیسے اللہ کے حکم سے گریز و فرار ہوتا ہے کہ اس مصالحت کا حکم اللہ ہی نے دیا ہے۔ اس لئے اس کی حیثیت امر اللہ ہی کی ہوگی۔ پس جب تک وہ باغی اور زیادتی کرنیوالا گروہ اللہ کے حکم کے آگے جھکنے اور زیادتی کو ترک کرنے کیلئے تیار نہ ہو تو تم اس کے خلاف لڑو۔ تاکہ معاشرہ ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنے والے عناصر اور ان کی ظلم و زیادتی سے پاک ہوجائے۔ اور اس میں امن وامان کا دور دورہ ہو اور یہ ایک اجتماعی اور معاشرتی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا اس میں ہر شخص کو اپنی ہمت اور حیثیت کے مطابق حصہ لینا چاہئے۔ [ 25] فیصلہ عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق : سو اس سے عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " اگر وہ باغی گروہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے اور صلح و صفائی کے لیے آمادہ اور تیار ہوجائے تو تم ان دونوں کے درمیان فیصلہ کرا دو عدل و انصاف کے ساتھ "۔ اور کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ تم غصے اور لڑائی یا کسی اور امر کی وجہ سے عدل و انصاف کی راہ سے ہٹ جاؤ اور اس کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دو ۔ [ جامع البیان وغیرہ ] سو عدل و انصاف ہر حال میں مطلوب ہے۔ اور پائیدار حکم و فیصلہ وہی ہوسکتا ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو کہ اس میں نہ کسی فریق کی کوئی رورعایت ہو اور نہ کسی سے کسی طرح کی زیادتی۔ اور جس فریق کا نقصان ہوا ہو اس کے نقصان کی تلافی ٹھیک ٹھیک عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق کردی جائے کہ عدل و انصاف کے تقاضوں کی تکمیل ہی سے معاشرے میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، [ 26] عدل وانصاف سے کام لینے کا حکم و ارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا اور عدل و انصاف کا صریح حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ " تم لوگ عدل و انصاف ہی سے کام لیا کرو "۔ یعنی ہر حال اور ہر معاملے میں۔ اور ہر کسی کے ساتھ۔ کیونکہ عدل و انصاف بہرحال مطلوب و محمود اور ایک عظیم الشان صفت ہے۔ چناچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انصاف کرنے والے قیامت کے روز عرش کی دائیں طرف نور کے منبروں پر ہوں گے۔ وہ جو کہ دنیا میں اپنے حکم و فیصلے میں عدل و انصاف سے کام لیتے تھے۔ اور اپنے متعلقین اور ماتحتوں میں انصاف کیا کرتے تھے [ ابن کثیر وحیرہ ] سو [ اقسطوا ] کے اس حکم و ارشاد سے عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے کہ نہ اس میں کسی کی کوئی بےجا رورعایت ہو اور نہ کسی سے ظلم و زیادتی ہو۔ والعیاذ باللّٰہ جل وعلا بکل حال من الاحوال، [ 27] انصاف کرنے والے اللہ تعالیٰ کے محبوب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اور حرف تاکید کے ساتھ فرمایا گیا کہ " بیشک اللہ محبت فرماتا ہے انصاف کرنے والوں سے " اس لئے وہ ان کو بہترین صلہ و بدلہ سے نوازے گا۔ { اللّٰہم ایاک نسال التوفیق لما تحب وترضی }۔ سو اس سے عدل و انصاف کے قیام کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی عظمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اول تو صاف وصریح طور پر عدل و انصاف کے قائم کرنے کا حکم و ارشاد فرمایا گیا، پھر اس حقیقت سے آگہی بخشی گئی کہ عدل و انصاف کے قائم کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ اور جس کو اللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہوگئی اس کو پھر اور کیا چاہیے ؟ کہ ایسے میں اس طرح کا خوش نصیب انسان تو اس پوری کائنات کے خالق ومالک کا محبوب بن گیا۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top