Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 36
فَمَا وَجَدْنَا فِیْهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَۚ
فَمَا : تو نہ وَجَدْنَا فِيْهَا : پایا ہم نے اس میں غَيْرَ بَيْتٍ : سوائے ایک گھر کے مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ : مسلمانوں میں سے
مگر ہم نے اس میں ایک کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر پایا ہی نہیں2
[ 33] اہل ایمان کی حفاظت اور نجات کا ذکر وبیان : سو اس سے اہل ایمان کی حفاظت و نجات اور معذب قوموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی ایک سنت اور قانون کا ذکر فرمایا گیا چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے اس بستی سے تمام اہل ایمان کو نکال لیا مگر ہم نے اس میں ایک کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔ اور وہ حضرت لوط (علیہ السلام) ہی کا گھر تھا، اس میں بھی ان کی بیوی شامل نہیں تھی، بلکہ وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں تھی، اس لئے حضرت مجاہد (رح) کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے ہیں، سو اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے جیسا کہ اہل بدعت کا شرکیہ عقیدہ ہے، ورنہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی اس طرح کافر کیوں رہتی ؟ اور وہ بھی اس بدبخت قوم کے ساتھ اس طرح مبتلا عذاب کیوں ہوتی ؟ اور دوسری بات یہاں سے یہ معلوم ہوئی کہ ہدایت اللہ پاک کے قبضہئِ قدرت و اختیار میں ہے، نہ کہ نبی کے اختیار میں ورنہ حضرت لوط (علیہ السلام) جیسے پیغمبر کی خود اپنی اس طرح فی النار والسقر نہ ہوتی۔ اور تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو خود ایمان کی دولت سے محروم ہو اس کو بڑی سے بڑی رشتہ داری بھی کام نہیں آسکتی، خواہ وہ کسی پیغمبر کی زوجیت اور قرابت ہی کی رشتہ داری کیوں نہ ہو۔ سو کامیابی و نجات کی راہ یہ ہے کہ اپنا ایمان و عقیدہ صحیح ہو، اور اپنا عمل و کردار درست۔ پس نجات و ہلاکت اور خوبی و خرابی کا اصل دارومدار اور مناط و انحصار انسان کے باطن اور اس کے اپنے عمل و کردار پر ہے، نہ کہ محض ظاہر داری اور تصنع و بناوٹ پر، اس طرح کے تمام تصورات شیطانی دھوکے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اس طرح اس سے سنت الہیہ کو واضح فرما دی گیا جو تمام انبیاء و رسل کی سرگزشتوں میں ہمیشہ پائی گئی ہے، یعنی یہ کہ رسول کے ذریعے اتمام حجت کے بعد جب کسی قوم پر فیصلہ کب عذاب آیا ہے، تو اس سے ان لوگوں کو بچالے گا جو ظہور عذاب سے پہلے اللہ کے رسول پر ایمان لا چکے تھے، پس ایمان و یقین کی راہ ہی سلامتی اور نجات کی راہ ہے، جب کہ کفر و تکذیب کا لازمی نتیجہ اور آخری انجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے ایسے منکرین وہ مکذبین کو مہلت اور ڈھیل جتنی بھی ملے آخر کار انہوں نے دائمی ہلاکت و تباہی کے انتہائی ہولناک گڑھے میں گر کر ہی رہنا ہوتا ہے والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین ویا اکرم الاکرمین،
Top