Tafseer-e-Majidi - Adh-Dhaariyat : 36
فَمَا وَجَدْنَا فِیْهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَۚ
فَمَا : تو نہ وَجَدْنَا فِيْهَا : پایا ہم نے اس میں غَيْرَ بَيْتٍ : سوائے ایک گھر کے مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ : مسلمانوں میں سے
سو ہم نے وہاں بجز مسلمانوں کے ایک گھر کے (کوئی گھر مسلمانوں کا) نہ پایا،20۔
20۔ (اور وہ ایک گھر حضرت لوط (علیہ السلام) پیغمبر ہی کا تھا) (آیت) ” قوما مجرمین “۔ ذکر حضرت لوط (علیہ السلام) کی بےدین و بدعمل قوم کا ہے ..... مفصل حاشیے کئی بار گزر چکے۔ (آیت) ” فاخرجنا ..... المسلمین “۔ اس بستی بھر میں کوئی دوسرا شریف و مومن بجز حضرت لوط (علیہ السلام) پیغمبر کے گھرانے کے اور تھا ہی نہیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے، اور شرق اردن میں جاکر آباد ہوگئے تھے۔ (آیت) ” لنرسل .... للمسرفین “۔ اس شامت زدہ قوم کے ہلاکت آسمانی پتھراؤ سے ہوئی تھی۔ (آیت) ” المسلمین “۔ ابھی ابھی ان کے لئے لفظ المومنین کا آچکا تھا۔ بعض مفسرین نے اس سے استدلال یہ کیا ہے کہ اسلام (باصطلاح شرعی) اور ایمان باہم مرادف ہیں۔ فیہ دلیل علی ان الایمان والاسلام واحد (مدارک) واستدل بالایۃ علی اتحاد الایمان والاسلام للاستثناء المعنوی (روح) لیکن امام رازی (رح) کا فرمانا یہ ہے کہ لفظ مسلم مومن سے عام تر ہے اور لفظ عام کا خاص پر برابر اطلاق ہوتا ہی رہتا ہے۔ اس سے دونوں کا اتحاد مفہوم الازم نہیں آتا، اور اس کی تائید مفسرین محققین اہل سنت نے بھی کی ہے۔ والدلالۃ علی ان المسلم بمعنی ال مومن ظاھرۃ والحق ان المسلم اعم من ال مومن واطلاق العام علی الخاص لامانع منہ فاذا سمی ال مومن مسلما لایدل علی اتحاد مفھومھا (کبیر) فالاستدلال بھا علی اتحاد ھمافیہ ضعیف (روح) وقال الرمانی الایۃ تدل علی ان الایمان ھو الاسلام وکذا قال الزمخشری وھما معتزلیان (بحر) واستدل بہ علی اتحاد الایمان والاسلام وھو ضعیف الان ذلک لایقتضی الاصدق ال مومن والمسلم علی من اتبعہ وذلک لا یقتضی اتحاد مفھومھما لجواز صدق المفھومات المختلفۃ علی ذات واحدۃ (بیضاوی) وھذا الاستدلال ضعیف ولا ینعکس فاتفق الایمان ھھنا لخصوصیۃ الحال ولا یلزم ذلک فی کل حال (ابن کثیر)
Top