Urwatul-Wusqaa - Adh-Dhaariyat : 36
فَمَا وَجَدْنَا فِیْهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَۚ
فَمَا : تو نہ وَجَدْنَا فِيْهَا : پایا ہم نے اس میں غَيْرَ بَيْتٍ : سوائے ایک گھر کے مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ : مسلمانوں میں سے
پھر ہم نے مسلمانوں کے ایک گھر کے سوا کوئی گھر نہ پایا
ہم نے اس بستی میں مسلمانوں کے ایک گھر کے سوا کوئی گھر نہ پایا 36 ؎ آپ سیدنا لوط (علیہ السلام) کی سرگزشت بھی پڑھ چکے ہیں کہ لوط (علیہ السلام) اس قوم سے حسب و نسب کے لحاظ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ لوط (علیہ السلام) سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے اور ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے ساتھ ہجرت کر کے آئے تھے اور پھر ایک مدت کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) کے اشارہ سے سدوم کی بستیوں کی طرف منتقل ہوئے اور اس جگہ ان کی زبان سے واقفیت حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس قوم کی ہدایت کے لئے نبی بنا دیئے گئے اور ابراہیم (علیہ السلام) ہی کا پیغام رسالت ان بستی والوں کو پہنچانے لگے اس لحاظ سے آپ کا گھر یا آپ کا گھرانہ اس بستی میں واحد گھرانہ تھا جو اللہ تعالیٰ کا پیغام اس بستی والوں کو پہنچا رہا تھا اور زیر نظر آیت میں اس بات کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ اس گھر میں اللہ تعالیٰ کی بات ہوتی تھی باقی گھروں میں جو حالت تیر اس کی تفصیل اوپر محولہ بالا آیات میں گزر چکی اور آپ کی بیوی بھی چونکہ اسی قوم کا ایک فرد تھی اس لئے اس نے بھی آپ کی بجائے اپنے خاندان والوں ہی کا ساتھ دیا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ پر ایمان لانے والے مکمل گھرانے نہیں تھے بلکہ کسی گھر میں سے ایک دو فرد کے طور پر تھے اور اس لحاظ سے جتنے بھی افراد ہوتے تھے سب مختلف گھروں سی تعلق رکھتے تھے اس طرح وہ معدودے چند آدمی ہی تھے جن کو لوط (علیہ السلام) اپنے ساتھ لے گئے تھے اور سنت اللہ کے مطابق اب ان معدودے چند آدمیوں کے سوا اس پوری بستی میں سے کوئی ایک بھی نہ بچا۔
Top