Tafseer-e-Madani - At-Tur : 28
اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوْهُ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
اِنَّا : بیشک ہم كُنَّا : تھے ہم مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے نَدْعُوْهُ ۭ : اس سے دعا کرتے۔ اسی کو پکارا کرتے اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ الْبَرُّ : وہی محسن ہے الرَّحِيْمُ : رحم فرمانے والا ہے
ہم اس سے پہلے صرف اسی کو پکارا کرتے تھے بلاشبہ وہی ہے بڑا احسان کرنے والا انتہائی مہربان
[ 35] عقیدہ توحید صلاح و فلاح دارین کی اصل اصیل : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ انسان کی نجات میں اصل عامل کی حیثیت عقیدہ توحید ہی کی ہے۔ چناچہ اہل جنت اپنی فائز المرامی کے بارے میں اور اس سے سرفرازی کے اسباب کے ذکر کے سلسلے میں کہیں گے کہ بلاشبہ اس سے پہلے یعنی دنیا میں ہم لوگ اسی وحدہٗ لاشریک کو پکارا کرتے تھے، اور امید وہم اور خوف و درجاء کی ہر حالت میں ہم اسی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے اور اس کے سوا اور کسی کو نہ ہم نے کبھی اس کا شریک وسہیم جانا اور نہ اس کے سوا اور کسی کو ہم نے کبھی پوجا پکارا۔ یعنی ہم عقیدہ توحید اور اس کی حقیقت سے آگاہ، سرفراز، اور اس کئی لذت و حلاوت سے سرشار تھے، اور ہمیشہ اور ہاحال میں اسی وحدہٗ لاشریک کو پکارا کرتے تھے۔ سو اللہ پاک کو پکارانا اور ہر حال اور ہر مقام میں پکارنا اور اسی وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی بجالانا وہ شاہ کلید ہے جو دارین کئی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کی کفیل وضامن ہے، پس اس میں بڑا درس عبرت و بصیرت ہے ان کلمہ گو مشرکوں کے لئے جو اللہ پاک کو چھوڑ کر اس کی عاجز مخلوق کو پکارتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے " یا علی مدد " کوئی " یا پیر دستگیر " کا نعرہ لگاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے " یا بہاؤ الحق میرا بیڑا دھک " اور کوئی کہتا ہے " یا معین الدین چشتی اجمیری پار لگادے کشتی میری " وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ سب پاکیزہ ہستیاں جو موت کی گہری نیند سو چکی ہیں خود زندگی بھر اللہ وحدہ ٗ لاشریک ہی کو پکارتی اور اسی کو پکارنے کا درس دیتی رہی تھیں۔ مگر اس سب کے باوجود ایسے لوگ انہی ہستیوں کے نام سے شرک کرنے لگ گئے اور حاجت روائی ومشکل کشائی کے لئے انہی کو بلانا پکارنا شروع کردیا حالانکہ قرآن حکیم ان کے بارے میں صاف وصریح طور پر کہتا ہے۔ { وھم عن دعائھم غافلون }۔ " کہ وہ ان کی دعا و پکار سے بالکل غافل و بیخبر ہیں "۔ مگر اس کے باوجود ایسے لوگوں کو یا اللہ مدد کہنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی، بہرکیف اس ارشاد سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح اور آشکار فرما دیا گیا کہ انسان کی نجات میں اصل عامل کی حیثیت عقیدہ توحید ہی کو حاصل ہے، اس لئے اہل جنت اپنے اس کلام کے آخر میں اس کا بطور خاص ذکر کریں گے کہ ہم نے ہمیشہ اللہ ہی کو پکارا اور امید و بیم کے ہر حال میں اسی پر بھروسہ کیا، اور اپنے اس عقیدے پر ہم لوگ زندگی بھر مستحکم و مستقیم رہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان فرمایا۔ سبحانہ وتعالیٰ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید۔ [ 36] اہل جنت کا انتہاء درجے کا اظہار ممنونیت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ کہیں گے بلاشبہ وہی ہے سب سے بڑا احسان فرمانے والا، انتہائی مہربان۔ کہ اسی نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں یہ راہ حق و صواب نصیب فرمائی، اور اس پر استقامت بخشی، ورنہ ہم از خود اس شرف سے مشرف ہونے والے نہ تھے۔ { وما کنا لنھتدی لو لا ان ھدانا اللّٰہ }۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اس لئے ہم زندگی میں صرف اسی کی عبادت کرتے، اور اسی وحدہٗ لاشریک کو پکارا کرتے تھے، سو اس طرح وہاں پر احوال دنیا کو یاد کرکے جنت والوں کا سرور دوبالا ہوگا اور ان کی لذت میں اضافہ ہوگا، اور کافر کے افسوس اور یاس و حسرت میں، [ المراغی وغیرہ ] والعیاذ باللہ العزیز سو اہل جنت اللہ پاک کے عظیم الشان اور بےپایاں احسان کو یاد کرکے یہ جملہ حددرجہ ممنونیت اور احسان مندی کے اظہار کے طور پر کہیں گے کہ وہ بڑا ہی کرم و احسان فرمانے والا انتہائی مہربان ہے۔ اس نے نہ صرف یہ کہ ہم سے اپنے وہ تمام وعدے پورے فرمائے جو اس نے اپنے بندوں سے فرمائے تھے بلکہ اس نے ان کو اپنے کرم مزید سے بھی نوازا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ حضرات اہل علم کا کہنا ہے کہ لفظ " بر " جب اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر آتا ہے تو اس وقت اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے اپنے بندوں کے ساتھ جو وعدے فرمائے ہیں وہ ان کو پورا کرنے والا ہے سو صدق و وفا اس لفظ کی اصل روح ہے اور اس کے ساتھ صفت رحیم کا اضافہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ صرف وعدے ہی پورے کرنے والا نہیں، بلکہ وہ اپنے بندوں کی کوتاہیوں سے درگزر کرکے ان کو اپنے مزید افضال و انعامات سے نوازنے والا بھی ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ کیونکہ وہ رحیم یعنی انتہائی مہربان بھی ہے۔ اللہ ہمیشہ اپنی خاص رحمتوں اور عنایتوں کے سائے میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین،
Top