Tafseer-e-Madani - An-Najm : 13
وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ
وَلَقَدْ رَاٰهُ : اور البتہ تحقیق اس نے دیکھا اس کو نَزْلَةً : اترنا اُخْرٰى : ایک مرتبہ پھر
اور بلاشبہ آپ ﷺ نے اس (فرشتہ) کو ایک اور مرتبہ بھی (اپنی اصل شکل میں) اترتے دیکھا
[ 15] پیغمبر (علیہ السلام) کے جبریل امین کو دوسری مرتبہ دیکھنے کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یقینا پیغمبر نے ان کو ایک مرتبہ اترتے دیکھا سدرۃ المنتہی کے پاس۔ کیونکہ یہاں " مرۃً اُخری " نہیں " نزلۃ اخری " فرمایا گیا ہے جو کہ نزول سے مشتق و ماخوذ ہے، اس لئے ہم اپنے ترجمہ کے الفاظ میں اسی فرق کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، والحمد للہ جمہور امت کے نزدیک ان دونوں مرتبوں میں آنحضرت ﷺ نے جس ہستی کو دیکھا، اس سے مراد جبریل امین ہی ہیں [ روح، مدراک، المراغی، المحاسن، صفوۃ اور ابن کثیر وغیرہ ] رہ گئی یہ بات کہ شب معراج میں آنحضرت ﷺ کو روایت باری جل وعلا نصیب ہوئی یا نہیں ؟ تو اس بارے میں اگرچہ حضرات اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، مگر جمہور کے نزدیک وہاں بھی رویت بصری نہیں جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین باتیں ایسی ہیں کہ ان میں سے جس کسی بات کی کبھی نسبت کسی نے آنحضرت ﷺ سے کی اس نے یقینا جھوٹ کا ارتکاب کیا، پھر آپ نے ان تینوں باتوں میں سے پہلی بات یہی بیان فرمائی کہ جس نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں کہا کہ آپ ﷺ نے شب معراج میں حضرت باری عزاسمہ کو دیکھا [ صحیح بخاری، کتاب التفسیر، کتاب التوحید، مسلم کتاب الایمان وغیرہ ] اور حضرت عائشہ ؓ کے علاوہ دوسرے بھی بہت سے اجلہ صحابہ کرام ؓ سے بھی یہی مروی ہے، جیسے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ وغیرہ اس کے مقابلے میں جو روایت حضرت ابن عباس ؓ ما سے مروی ہے اس میں بڑا اضطراب ہے اس لئے ثقہ علماء کرام نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، سند و روایت کے اعتبار سے بھی اور عقل و درایت کے اعتبار سے بھی، بہرکیف جمہور کا موقف روایۃً بھی قوی ہے اور درایۃ بھی، اور سورة نجم کی ان مذکورہ بالا آیات قرآنیہ کے سیاق وسباق کے بھی مطابق یہی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جبریل امن کو ہی دیکھا تھا، چناچہ مسند امام احمد (رح) کی روایت کے مطابق حضرت مسروق (رح) نے جب ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے اس بارے میں پوچھا اور عرض کیا " ہل رایٰ محمد ﷺ ربہ جل و علائ " [ کیا حضرت محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ؟] تو اس کے جواب میں حضرت ام المومنین ؓ نے برہم ہو کر ارشاد فرمایا کہ تم نے ایسی بات کہی کہ اس سے میرے جسم کی رونگٹے کھڑے ہوگئے، جو کوئی تم سے یہ کہے کہ پیغمبر نے اپنے رب کو دیکھا ہے، تو اس نے یقینا جھوٹ بولا ہے، پھر آپ ؓ نے اس کی تائید و تصدیق میں قرآن پاک کی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی { لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار ج وھو اللطیف الخبیر } [ انعام : 104 پ 7] نیز آپ ؓ نے سورة شوریٰ کی یہ آیت کریمہ بھی تلاوت فرمائی { وما کان لبشر ان یکلمہ اللّٰہ الا وحیا او من ورای حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ ما یشائُ ط انہٗ علی حکیم } الاٰیۃ [ شوری : 51] [ ابن جریر، ابن کثیر، محاسن التاویل، جامع البیان، قرطبی، خازن، اور روح المعانی وغیرہ ] یہاں پر ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، اس سے زیادہ اور پوری تفصیل ہم اپنی مفصل تفسیر میں پیش کریں گے۔ انشاء اللہ وباللہ التوفیق۔ بہرکیف جمہور علماء و مفسرین کرام کے نزدیک ان تمام آیات کریمات کا تعلق حضرت جبریل امین کی رؤیت ہی سے ہے اور ان کے نزدیک ان دونوں موقعوں پر پیغمبر نے جس ہستی کو دیکھا وہ حضرت جبریل امین ہی کی ہستی تھی۔ مفسر ابو حیان نے جمہور کے قول کی تصویب کرتے ہوئے اسی کو صحیح قرار دیا اور اس کے لئے وہ اسی آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہیں یعنی " ولقد رآہ نزلۃً اخری " سے اور یقینا آپ نے ان کو ایک اور مرتبہ دیکھا "۔ اور دوسرے ثقہ مفسرین کرام، اور حضرات اہل علم نے مفسر ابن حیان کے اس استدلال کو صحیح قرار دیا۔ [ البحر المحیط اور حاشیہ صفوۃ التفاسیر وغیرہ ] پس اس رویت کا تعلق رؤیت جبریل ہی سے ہے،
Top