Tafseer-e-Madani - An-Najm : 12
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ : کیا پھر تم جھگڑتے ہو اس سے عَلٰي مَا يَرٰى : اوپر اس کے جو وہ دیکھتا ہے
تو کیا تم لوگ اس سے اس چیز پر جھگڑتے ہو جس کو اس نے خود دیکھا (اپنی کھلی آنکھوں سے ؟ )
[ 14] منکرین کے حال پر اظہار تعجب و افسوس : سو ارشاد فرمایا گیا اور منکرین کے قلوب و ضمائر کو جھنجھوڑتے ہوئے ان کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم لوگ ان سے ان باتوں پر جھگڑتے ہو جن کو انہوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ؟ یعنی یہ کیسی عجیب اور کتنی نامعقول بات ہے، کہ تم لوگ پیغمبر سے ان امور اور حقائق کے بارے میں جھگڑتے اور ان میں شک کرتے ہو جو آپ ﷺ نے کھلی آنکھوں سے دیکھے ہیں، سو یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی اندھا کسی آنکھوں والے سے جھگڑے، اور وہ اس کی اب باتوں کا انکار اور ان میں شک کرے جن کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو، مگر اس کے باوجود وہ اندھا اس آنکھوں والے سے کہے کہ نہیں صحیح وہ نہیں جو تم دیکھ رہے ہو، بلکہ صحیح وہ ہے جو میں کہہ رہا ہوں، سو اس سے بڑھ کر سفاہت و جہالت اور مکابرہ و سینہ زوری اور کیا ہوسکتی ہے ؟ والعیاذ باللّٰہ العظیم، بہرکیف اس ارشاد میں ان لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا گیا کہ تم لوگ پیغمبر سے ان باتوں پر جھگڑتے ہو جن کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے ؟ اگر ایک چیز تم کو نظر نہیں آتی تو اس سے نفس حقیقت تو باطل نہیں ہوتی، یہاں پر یہ بات ملحوظ رہے کہ مخالفین اپنے کاہنوں کی ساری خرافات کر تو بےچون و چرا اور بےدریغ تسلیم کرلیتے تھے، لیکن پیغمبر کے پیش کردہ ٹھوس حقائق کو بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے، کیونکہ کاہنوں کی باتیں ان کی خواہشات کے مطابق ہوئی تھیں، جبکہ پیغمبر کی دعوت ان کی خواہشات کے خلاف تھی، اس لئے وہ آپ ﷺ کی مخالفت کے لئے طرح طرح کے شبہات پیدا کرتے تھے، اور یہی حال دنیا کل تھا، اور یہی آج ہے، سو اتباع ہو، یعنی خواہش پرستی محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین،
Top