Tafseer-e-Madani - Ar-Rahmaan : 6
وَّ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ
وَّالنَّجْمُ : اور تارے وَالشَّجَرُ : اور درخت يَسْجُدٰنِ : سجدہ کر رہے ہیں
(اسی کے حضور) سجدہ ریز ہوتے ہیں ستارے بھی اور درخت بھی
[ 5] نجم و شجر کی سجدہ ریزی کا ذکر وبیان : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اسی کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں ستارے بھی اور درخت بھی۔ یعنی تکوینی طور پر کہ جس کو جس غرض کے لئے پیدا فرمایا گیا ہے، اور جس کو جس کام پر متعین و مامور فرمایا گیا ہے، وہ ٹھیک ٹھیک بلا کسی چون و چرا کے اس کو انجام دے رہا ہے۔ سو یہ ان تمام اشیاء اور مخلوقات کا تکوینی اور فطری سجدہ ہے جس کو ان میں سے ہر چیز پوری مستعدی اور پابندی کے ساتھ ادا کر رہی ہے۔ مگر یہ چونکہ اس کا ایک طبعی عمل اور فطری وظیفہ ہے، جس میں اس کا اپنا کوئی ارادہ و اختیار نہیں۔ اس لیے ان میں سے کسی کیلئے بھی اس سجدہ ریزی پر کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا، رہ گیا تشریعی سجدہ تو وہ صرف انسانوں اور جنوں کے ساتھ خاص ہے جن کی تخلیق کا اصل مقصد ہی عبادت و بندگی رب ہے۔ اور اسی پر اجر وثواب کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے ارادہ اختیار سے ہوتا ہے، جب کہ تکوینی سجدہ جبر و قسر سے، سو آسمان کے ستارے ہوں یا زمین کے درخت، سب ہی اپنے خالق ومالک کے آگے سرنگوں اور اس کے حضور سجدہ ریز ہیں، جیسا کہ پ 17 سورة حج کی آیت نمبر 18 میں ارشاد فرمایا گیا۔ { الم تران اللّٰہ یسجد لہٗ من فی السموت ومن فی الارض والشمس والقمر والنجوم والجبال والشجر والدواب و کثیر من الناس ط و کثیر حق علیہ العذاب ط ومن یھن اللّٰہ فما لہ من مکرم ط ان اللہ یفعل ما یشآئ کہ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ ہی کیلئے سجدہ ریز ہوتے ہیں وہ سب بھی جو کہ آسمانوں میں ہیں اور وہ سب بھی جو کہ زمین میں ہیں، اور سورج، چاند اور ستارے بھی۔ پس نجم سے یہاں مراد اس لفظ کے مشہور و معروف معنی ہی ہیں۔ یعنی ستارے۔ پس جن لوگوں نے یہاں پر نجم سے مراد زمین پر پیدا ہونے والے جھوٹے پودے لیے ہیں ان کا قول درست نہیں، ابن کثیر نے نجم سے ستارہ ہی مراد لیا ہے۔ سو آسمانوں کے ستارے اور زمین کے درکت سب ہی اپنی ان سجدہ ریزیوں سے اپنی زبان حال کے ذریعے پکار پکار کر انسان کو یہ دعوت دے رہے ہیں کہ وہ بھی صدق دل سے اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوجائے اور اپنی سرکشانہ روش کو ترک کرکے اس کی اطاعت و بندگی کی راہ کو اپنائے کہ یہی اس کے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کی واحد راہ ہے، اور اپنے رب کے حضور سرافگندگی اور سجدہ ریزی ہی اسلام و اطاعت اور تقویٰ و پرہیزگاری ہے اور یہی یعنی اسلام ہی دین ہے اس پوری کائنات کا۔ { افغیر دین اللّٰہ یبغون ولہٗ اسلم من فی السموت والارض طوعا وکرھا والیہ یرجعون } [ آل عمران : 83 پ 13] یعنی اسی کے حضور سرافگندہ ہیں وہ سب جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہیں اس لئے بندوں کو بھی دل و جان سے اس کے حضور جھکنا اور جھکنے ہی رہنا چاہیے کہ یہ سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، بکل حال من الاحوال،
Top