Tafseer-e-Madani - Al-Hashr : 6
وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَاۤ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِكَابٍ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَمَآ اَفَآءَ اللّٰهُ : اور جو دلوایا اللہ نے عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسولوں کو مِنْهُمْ : ان سے فَمَآ : تو نہ اَوْجَفْتُمْ : تم نے دوڑائے تھے عَلَيْهِ : ان پر مِنْ خَيْلٍ : گھوڑے وَّلَا رِكَابٍ : اور نہ اونٹ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يُسَلِّطُ : مسلط فرماتا ہے رُسُلَهٗ : اپنے رسولوں کو عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس پر وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھتا ہے
اور جو بھی کچھ مال لوٹایا ہے اللہ نے اپنے رسول پر ان لوگوں کے قبضے سے نکال کر تو اس پر تم لوگوں نے (اے مسلمانو ! ) نہ گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ بلکہ اللہ (اپنی شان قدرت و عنایت سے) اپنے رسولوں کو جس پر چاہے تسلط (اور غلبہ) عطا فرما دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے
[ 15] مال فئی سے سرفرازی بغیر جہاد و قتال کے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو بھی کچھ مال اللہ نے ان لوگوں کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول پر لوٹا یا اس پر تمہاری کوئی محنت نہیں لگی، اسے مسلمانو ! کیونکہ یہ لفظ یعنی " افائ " اصل میں فئی سے ماخوذ ہے جس کے معنی لوٹنے اور واپس ہونے کے آتے ہیں، یعنی یہ مال جو ان یہود وغیرہ و دشمنان اسلام سے لیا جاتا ہے، یہ دراصل اللہ پاک ہی کا تھا، اور اسی کا ہے، کیونکہ زمین و آسمان کی پوری کائنات کی ہر چیز دراصل اسی وحدہٗ لاشریک کی ملکیت ہے، وہ اپنی مشیت ومرضی سے جس کو چاہتا ہے دنیا کے اس عارضی تصریف کے لئے عطا فرما دیتا ہے، اور جو کوئی شخص یا قوم اپنے تمرو سرکشی اور کفر و معصیت کی وجہ سے اپنی اہلیت و لیاقت کو ضائع کر دے، تو اس سے یہ دولت چھین کر واپس لے لی جاتی ہے، اور اللہ کے مطیع و فرمانبردار بندوں یعنی اہل ایمان کو دے دی جاتی ہے، اسی لئے کفار سے جنگ کے بغیر ملنے والے اس مال کو مال فے کہا جاتا ہے، سبحان اللّٰہ ! کیا کہنے قرآن حکیم کی عظمتوں کے کہ اس کے لفظ لفظ میں نت نئے معانی و مفاہیم ہیں، کوئی کیا کیا بیان کرے، اور کہاں تک بیان کرے، بہرکیف یہاں سے مال فئی کا حکم بیان فرمایا جا رہا ہے جو کہ مال غنیمت سے مختلف ہے اور اس کے خاص اور مستقل مصارف ہیں جن میں اس کو تقسیم کیا جاتا ہے، اور جن تقسیم جس کی تفصیل آگے آرہی ہے، والحمدللّٰہ رب العالمین، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وھو العزیز الوھاب، ملہم الصدق والصواب، والھادی الی الحق الرشاد۔ [ 16] مال فئی اور مال غنیمت کے درمیان فرق : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ مال فے کے بارے میں حیثیت مال غنیمت سے مختلف ہے، کہ ان دونوں کی حقیقت بھی الگ ہے اور ان کا حکم بھی مختلف ہے۔ سو مال فے کی بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ اس کیلئے نہ تم لوگوں نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔ یعنی اس کیلئے تمہیں کوئی مشقت نہیں اٹھانا پڑی، نہ جنگ کرنا پڑی، اور نہ دشمنوں سے لڑنے بھڑنے کی نوبت ہی آئی، پس تم اس کو مال غنیمت کی طرح مت سمجھو کہ جس میں سے ایک خمس نکالنے کے بعد باقی ماندہ چار حصے مجاہدین پر تقسیم کر دئیے جاتے ہیں، بلکہ اس مال فیئی کی حقیقت اور الگ شان اور اس کے احکام جدا اور مختلف ہیں، روایات کے مطابق یہ آیت کریمہ اس پر نازل ہوئی کہ بعض صحابہء کرام ؓ نے اموال بنو نضیر کو مال غنیمت کی طرح تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تو اس پر ان کو مال غنیمت اور مال فیئی کے درمیان یہ فرق بتادیا گیا کہ مال غنیمت کا حکم اور ہے، اور مال فیئی کا اور، پس جیسے مال غنیمت میں تمہیں تقسیم و تملیک کا حق ہوتا ہے، ویسے مال فیئی میں نہیں ہوسکتا، کیونکہ مال فیئی کی حیثیت مال غنیمت سے مختلف ہے کہ اس کیلئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے، نہ اونٹ اور نہ ہی تمہیں اس کے لئے کسی طرح کی کوئی مشقت اٹھانا پڑی، [ 17] اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے غلبے اور تسلط کا ذکر وبیان : سوا رشاد فرمایا گیا کہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ عطا فرما دیتا ہے۔ پس مال فیئی کی تقسیم رسول کی صوابدید پر ہے، وہ اسے جہاں چاہیں صرف فرما دیں، اور بخاری و مسلم وغیرہ کی روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ نے اموال بنو نضیر میں سے اپنے گھروں کیلئے ایک سال کے اخراجات نکالنے کے بعد باقی ماندہ کو جہاد فی سبیل اللہ کیلئے آلات و ضرب خریدنے وغیرہ کے مصارف میں صرف کرنے کا حکم و ارشاد فرما دیا، بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ نصرت اور غلبہ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہء قدرت و اختیار میں ہے، وہ اپنے رسولوں کو جس طرح چاہے غلبہ عطا فرما دے، وہ قادر مطلق کسی کی نصرت و امداد کا محتاج نہیں، بلکہ وہ سب سے غنی اور بےنیاز ہے، سبحانہ و تعالیٰ ، وہ اگر چاہے تو اپنے رسول کو بغیر کسی فوج کے دشمنوں کے کسی بڑے سے بڑے ملک پر غالب کر دے، کہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے، وہ اگر اہل ایمان سے مدد طلب کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ اس کا محتاج ہے، بلکہ اس میں دوسری بہت سی حکمتیں کار فرما ہیں، جن میں سے ایک اہم حکمت یہ ہے کہ اس طرح خود ان لوگوں کے لئے سعادت دارین کی راہ کھلے، اور تاکہ اس طرح مخلص اور منافق کے درمیان امتیاز ہوجائے اور کھرا و کھوٹا اور مخلص و منافق عملی طور پر سب کے سامنے آجائیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل زیغ و ضلال۔ [ 18] اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے، سبحانہ وتعالیٰ : وہ جو چاہے کرے اور جیسا چاہے کرے اس کے لئے کوئی بھی چیز مشکل نہیں، سب کچھ اس کے قبضہء قدرت و اختیار میں ہے۔ پس کبھی وہ ظاہری لڑائی وغیرہ کی صورت میں اپنے بندوں کو فتح سے نوازتا ہے جیسا کہ غزوہ بدر میں ہوا، اور کبھی اس کے بغیر ہی دشمنان اسلام کو زیر کردیتا ہے، جیسا کہ غزوہ بنو نضیر میں ہوا، پس اس کی قدرت مطلقہ کی شووؤن مختلف و متنوع ہیں، سبحانہ وتعالیٰ ، وہ قادر مطلق اگر چاہے تو بغیر کسی لشکر کے اپنے رسول کو دشمن کے کسی بڑے سے بڑے لشکر پر بھی غالب فرما دے، اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں، سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو غزوہ بنو نضیر کی یہ فتح بھی مسلمانوں کو محض اس کے فضل و کرم سے نصیب ہوئی، ورنہ تم نے اس کیلئے اے مسلمانو ! نہ گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ، اس کے لئے نہ تم لوگوں کو کوئی محنت کرنا پڑی اور نہ مشقت اٹھانا پڑی۔ اس لیے اس سے حاصل ہونے مال " فیئی " کی تقسیم کا معاملہ بھی اللہ اور اس کے رسول ہی کے حوالے اور انہی کے حکم و ارشاد کے تابع ہے۔ اس میں اس طرح خمس جاری نہیں ہوگا۔ جس طرح کہ مال غنیمت میں ہوتا ہے۔
Top