Tafseer-e-Madani - Al-Ghaashiya : 3
عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌۙ
عَامِلَةٌ : عمل کرنے والے نَّاصِبَةٌ : مشقت اٹھانیوالے
مشقت اٹھانے والے تھکے ماندے ہوں گے
(2) اس روز ناکام و نامراد لوگوں کے حال بد کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " کتنے ہی چہرے اس روز ذلیل و خوار ہوں گے "۔ چہروں سے یہاں پر مراد ہیں چہروں والے، ای اصحاب الوجوہ۔ چہرہ چونکہ انسانی جسم کا سب سے اشرف عضو ہوتا ہے اس لیے اس کا اطلاق فرما کر اس سے پورا انسان مراد لیا گیا ہے جو کہ عربی زبان و محاورہ کا ایک معروف اور بلیغ اسلوب ہے، سو جن لوگوں نے اپنے کفر و انکار اور اعراض و استکبار کی بنا پر حق سے منہ موڑا ہوگا اور انہوں نے اس دنیا میں اپنی رضا ورغبت سے اپنے خالق ومالک کے حضور جھکنے اور خشوع و خضوع کا شرف حاصل نہیں کیا ہوگا وہ بدلہ و جزا کے اس دن میں اسی طرح ذلیل و خوار ہوں گے، اور ان کی یہی ذلت و خواری ہوگی جو ان کے چہروں پر عیاں اور واضح ہوگی، اور وہ ان پر اس طرح جم چکی ہوگی کہ اب کسی بھی طرح اس سے ان کی جان نہ چھوٹ سکے گی، والعیاذ باللہ۔ سو کس قدر سعادت مند اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو دنیا کی اس زندگی میں اپنی رضا ورغبت اور شوق و ذوق سے اپنے خالق ومالک کے حضور سجدہ ریز ہونے اور خشوع و خضوع کو اپنانے کے شرف سے مشرف ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف یہ کہ روز جزا کی اس ذلت و خواری سے محفوظ رہیں گے بلکہ وہاں کی دائمی اور حقیقی کامیابی سے بھی بہرہ مند و سرفراز ہوں گے۔ فزدنا اللھم خشوعا لک و خضوعا وعبودیۃ وحبا فیک برحمتک یا ارحم الرحمین۔ بہرکیف ان کلمات کریمہ سے یہاں پر اس روز حساب و جزا میں ناکام و نامراد قرار پانے والے لوگوں کے حال بد کی تصویر پیش فرمائی گئی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " وہ مشقت اٹھانے والے تھکے ماندے اور نڈھال و بدحال ہوں گے "۔ وہاں کے طرح طرح کے اور ہولناک عذابوں کی وجہ سے، نیز زندگی بھر کے ان اعمال شاقہ کی بنا پر جو کہ دین کی روشنی سے محرومی کے باعث ان لوگوں نے از خود اپنے اوپر اپنی دنیاوی زندگی میں مسلط کر رکھے تھے، جیسے ہندو جوگیوں، سنیاسیوں کی چلہ کشیاں، عیسائی راہبوں اور بدھ بھکشوں وغیرہ کی طرح طرح مشقتیں، کہ ان میں سے کوئی چیز بھی ان کو وہاں کام نہیں آسکے گی، اور جس طرح کہ اہل بدعت نے طرح طرح کے بدعی اور شرکیہ اعمال از خود اختراع کر رکھے ہیں، جن کے لیے دین متین میں کوئی سند و ثبوت نہیں، اور ایسا ہر عمل نبی معصوم (علیہ الصلوۃ والسلام) کے صاف وصریح ارشادات کے مطابق مردود اور ناقابل قبول ہوگا، جیسا کہ صحیحین وغیرہ اور مشہور حدیث میں ارشاد گیا " من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد "۔ یعنی ’ ’ جس کسی نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات شامل کی جو کہ اس میں ثابت و موجود نہیں تھی تو وہ مردود ہے "۔ سو ایسے تمام لوگ جنہوں نے دینی تعلیم کی روشنی سے محرومی کے عالم میں ایسے پر مشقت عمل کیے ہوں گے اس روز وہ دیکھیں گے کہ ان کی تمام مشقتوں اور چلہ کشیوں کا کوئی صلہ وثمرہ ان کے لیے وہاں موجود بلکہ اس کے برعکس وہاں ان کو طرح طرح کے عذابوں کا سامنا ہوگا، تو اس وقت ان کی وہ دنیاوی مشقت اور اس کے نتیجے میں لاحق ہونے والی ان کی یاس حسرت اور وہاں کی ناکامی و نامرادی سب مل کر ایک ہولناک ذلت کی شکل میں ان کے چہروں پر چھا رہی ہوگی، والعیاذ باللہ العظیم۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ بیت المقدس کے سفر کے دوران جب آپ نے ایک ضعیف و ناتواں عیسائی راہب کو دیکھا کہ وہ چلہ کشیاں کر رکے سوکھ گیا ہے تو آپ رو پڑے، اور پھر آپ نے یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی ( روح، ابن کثیر، قرطبی، مراغی وغیرہ) سو حق و ہدایت کی روشنی سے محروم ایسے لوگ اس روز بڑے ہی نڈھال اور بدحال ہوں گے ( والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین، یا رب العالمین و یا ارحم الرحمین، و یا اکرم الاکرمین، یا من بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیر ولا یجار علیہ۔
Top