Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 23
فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ١ۚ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
فَاَجَآءَهَا : پھر اسے لے آیا الْمَخَاضُ : دردِ زہ اِلٰى : طرف جِذْعِ : جڑ النَّخْلَةِ : کھجور کا درخت قَالَتْ : وہ بولی يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش میں مِتُّ : مرچکی ہوتی قَبْلَ ھٰذَا : اس سے قبل وَكُنْتُ : اور میں ہوجاتی نَسْيًا مَّنْسِيًّا : بھولی بسری
پھر درد زہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مر چکتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی
23: فَاَجَآ ئَ ھَا الْمَخَاضُ (پس دردزہ ان کو لے آیا) لے آیا یا ان کو مجبور کیا۔ یہ جاء سے منقول ہو کر آیا البتہ اس کا استعمال اِلْجَاء کے معنی کی طرف منتقل ہونے سے بدل گیا۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس طرح نہیں کہتے۔ جئت المکان، اجاء فیہ زیدٌ المخاص دردزہ۔ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ (کھجور کے تنے کی طرف) کھجور کی جڑ کی طرف اور یہ درخت خشک تھا۔ اور یہ موسم سردی کا تھا۔ النخلۃ کو معرفہ لا کر ظاہر کیا۔ کہ یہ کھجور کا معروف درخت تھا۔ نمبر 2۔ اور یہ بھی درست ہے کہ تعریف جنس کو ظاہر کرنے کیلئے ہو۔ یعنی جذع ھذہ الشَّجَرَۃ اس درخت کے تنے کی طرف گویا کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور کی طرف اس کی راہنمائی کی تاکہ وہ اس سے تر کھجور کھائے۔ کیونکہ نفاس والی عورتوں کی یہ مخصوص خوراک ہے۔ پھر تکلیف کی شدت کی وجہ سے قالت بول اٹھی۔ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا (اے کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی) ھٰذاکا مشار الیہ الیومؔ ہے۔ قراءت : مدنی، کوفی نے سوائے ابوبکر کے مِتُّ کسرہ سے اور دیگر قراء نے مُتُّ پڑھا ہے۔ کہا جاتا ہے مات یموت و یمات وَ کُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا ( اور ہوجاتی بھولی بسری) ایسی متروکہ چیز جو نہ معروف ہو اور نہ قابل تذکرہ ہو۔ قراءت : حمزہ، حفص نے نسیًا کو فتحہ نون سے اور دیگر قراء نے کسرہ سے۔ مگر دونوں کا معنی یکساں ہے۔ ایسی چیز کو کہتے ہیں۔ جو پھینکے جانے اور حقارت کی وجہ سے بھلا جانے کے قابل ہو۔
Top