Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 48
وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ١ۖ٘ عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا
وَاَعْتَزِلُكُمْ : اور کنارہ کشی کرتا ہوں تم سے وَمَا : اور جو تَدْعُوْنَ : تم پرستش کرتے ہو مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ وَاَدْعُوْا : اور میں عبادت کروں گا رَبِّيْ : اپنا رب عَسٰٓى : امید ہے اَلَّآ اَكُوْنَ : کہ نہ رہوں گا بِدُعَآءِ : عبادت سے رَبِّيْ : اپنا رب شَقِيًّا : محروم
اور میں آپ لوگوں سے اور جن کو آپ خدا کے سوا پکارا کرتے ہیں ان سے کنارہ کرتا ہوں اور اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا
48: وَاَعْتَزِلُکُمْ (اور میں تم لوگوں سے الگ ہوجائوں گا) علیحدگی کے ارادے سے مراد وہ ہجرت ہے۔ جو انہوں نے بابل سے شام کی طرف کی۔ وَمَاتَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ (اور جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو) یعنی جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو۔ وَاَدْعُوْا رَبِّیْ (اور میں اپنے رب کو پکاروں گا) یعنی اپنے رب کی عبادت کرونگا پھر آپ نے بطور تواضع اور کسر نفسی کے کہا اور ان کے بتوں کو پکارنے کی وجہ سے بدبختی سے اعراض کرتے ہوئے کہا۔ عَسٰٓی اَلَّآاَکُوْنَ بِدُعَآ ئِ رَبِّیْ شَقِیًّا (مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب کی پکار سے بدنصیب نہ ہونگا) یعنی جس طرح تم بتوں کی عبادت کر کے بدنصیب ہوگئے۔
Top