Al-Qurtubi - Maryam : 48
وَ اَعْتَزِلُكُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ١ۖ٘ عَسٰۤى اَلَّاۤ اَكُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا
وَاَعْتَزِلُكُمْ : اور کنارہ کشی کرتا ہوں تم سے وَمَا : اور جو تَدْعُوْنَ : تم پرستش کرتے ہو مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ وَاَدْعُوْا : اور میں عبادت کروں گا رَبِّيْ : اپنا رب عَسٰٓى : امید ہے اَلَّآ اَكُوْنَ : کہ نہ رہوں گا بِدُعَآءِ : عبادت سے رَبِّيْ : اپنا رب شَقِيًّا : محروم
اور میں آپ لوگوں سے اور جن کو آپ خدا کے سوا پکارا کرتے ہیں ان سے کنارہ کرتا ہوں اور اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واعتزلکم، العزلہ کا معنی جدائی ہے، سورة الکہف میں اس کا بیان ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : عسی الا اکون ببدعا ربی شقیا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اہل اور اولاد عطا کرے جن سے وہ تقویت حاصل کرے تاکہ وہ اپنی قوم سے جدائی کی وجہ سے وحشت میں مبتلا نہ ہوں اسی وجہ سے فرمایا : فلما اعتزلھم وما یعبدون من دون اللہ وھبننالہ اسحاق ویعقوب ہم نے اسے بیٹے کی نعمت بخش کر اس کی وحشتکو دور کیا۔ حضرت ابن عباس وغیرہ سے یہ مروی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : عسیٰ ، اس ببات پر دلالت کرتا ہے کہ بندہ قطعی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ معرفت پر باقی رہے یا مستقبل میں باقی رہے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ باپ کے لیے ہدایت کی جائے گی یا نہیں ؟ پہلا قول اسظہر ہے اور فرمایا : وجعلنا لھم لسان صدق علیا۔ یعنی ہم نے ان کی خوب تعریف کی کیونکہ تمام ملتیں ان انبیاء کرام کی تعریف میں رطب اللسان ہوتی ہیں اور لسان، مذکر اور مونث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔
Top