Madarik-ut-Tanzil - Az-Zukhruf : 36
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ
وَمَنْ : اور جو يَّعْشُ : غفلت برتتا ہے۔ اندھا بنتا ہے عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے ذکر سے نُقَيِّضْ : ہم مقرر کردیتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے شَيْطٰنًا : ایک شیطان فَهُوَ لَهٗ : تو وہ اس کا قَرِيْنٌ : دوست ہوجاتا ہے
اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرلے (یعنی تغافل کرے) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے۔
بتکلف اندھے پر شیطان کا تسلط : آیت 36: وَمَنْ یَّعْشُ (جو اندھا بن جائے) قراءت : یہ من یَعْشَ بھی پڑھا گیا ہے۔ ہر دو میں فرق یہ ہے کہ جب نگاہ میں نقصان پہنچے تو کہا جاتا ہے۔ عشی یعشَی۔ اور جب کوئی اندھوں کی طرح دیکھے اور نگاہ میں نقص نہ ہو تو کہا جاتا ہے۔ عشا یعشو۔ اب فتحہ والی قراءت کا معنی یہ ہے جو اندھا ہوا رحمان کی نصیحت سے۔ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ (رحمان کی نصیحت سے) یعنی قرآن۔ یہ اس ارشاد کی طرح ہے۔ صم بکم عمی۔ ] البقرۃ۔ 18[ اور ضمہ والی قراءت کا معنی جو اللہ تعالیٰ کی نصیحت سے بتکلف اندھا بنا یعنی یہ جانتے ہوئے کہ وہ برحق ہے اور وہ اس سے بتکلف جہالت کا اقرار کر رہا ہے۔ جیسا فرمایا۔ وجحدوا بہاو استیقنتہا انفسہم۔] النمل۔ 14[ نُقَیِّضْ لَہ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗٗ قَرِیْنٌ (ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں پس وہ اس کے ساتھ رہتا ہے) ابن عباس ؓ نے فرمایا۔ ہم اس کو اس پر مسلط کردیتے ہیں۔ وہ دنیا و آخرت میں اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کو گناہوں پر آمادہ کرتا ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو ذکر رحمان پر مداومت کرتا ہے۔ شیطان اس کا ساتھی نہیں بنتا۔
Top