Madarik-ut-Tanzil - Al-Maaida : 67
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول بَلِّغْ : پہنچا دو مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف (تم پر مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب وَ : اور اِنْ : اگر لَّمْ تَفْعَلْ : یہ نہ کیا فَمَا : تو نہیں بَلَّغْتَ : آپ نے پہنچایا رِسَالَتَهٗ : آپ نے پہنچایا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْصِمُكَ : آپ کو بچالے گا مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ : قوم کفار
اے پیغمبر ! جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچ دو ۔ اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے۔ (یعنی پیغمبری کا فرض ادانہ کیا) اور خدا تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔ بیشک خدا منکروں کو ہدایت نہیں دیتا۔
بےخطر ہو کر اللہ کا پیغام پہنچائیں : آیت 67 : یٰٓـاَ ۔ یُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ما انزل سے مراد وہ تمام جو آپ کی طرف اتارا گیا۔ اور جو آپ کی طرف اتار دی گئی ہے اس کو دوسری طرف پہنچانے میں کسی کی حفاظت کی ضرورت نہیں۔ اور نہ کسی خطرہ کی ضرورت ہے۔ کہ آپ کو اس سلسلے میں تکلیف پہنچے گی۔ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْاگر وہ تمام آپ نے نہ پہنچایا جیسا میں نے آپ کو حکم دیا ہے۔ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ تو آپ نے اس وقت نہ پہنچایا اس چیز کو جس کا آپ کو ادائے رسالت کے سلسلے میں مکلف بنایا گیا اور آپ نے گویا اس میں سے کوئی چیز کبھی بھی ادا نہیں کی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا بعض حصہ ادائیگی میں دوسرے سے افضل واولیٰ نہیں (بلکہ سب یکساں ہیں) تو جب بعض کو ادا نہیں کیا تو گویا تمام کی ادائیگی میں غفلت برتی۔ اس کی مثال اس طرح ہے جیسا کہ جو آدمی اس کے بعض حصہ پر ایمان نہیں رکھتا ہے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو تمام پر ایمان نہیں رکھتا۔ کیونکہ تمام وحی ایک ہی حکم میں ہے۔ کیونکہ وہ ساری ایک خطاب میں داخل ہے۔ اور ایک چیز پہنچائی ہوئی نہ پہنچائی ہوئی نہیں بن سکتی اس پر ایمان والا بھی ہو اور ایمان نہ لانے والا بھی ہو۔ ملحدین کا قول : یہ کلام بےفائدہ ہے۔ یہ کلام اس طرح ہے جیسے تم اپنے غلام کو کہو کل ہذا الطعام فان لم تاکلہ فانک ما اکلتہٗ یہ کھانا کھائو اگر تو نے نہ کھایا تو گویا تو نے اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ پیغام پہنچانے کا مطلب : جواب : یہ مستقبل میں پیغام رسالت کے پہنچانے کا حکم ہے یعنی تم مستقبل میں اس چیز کو پہنچائو جو آپ کی طرف اتاری گئی آپ ﷺ کے رب کی طرف سے اگر آپ نے مستقبل میں نہ پہنچایا تو گویا آپ نے رسالت کو بالکل نہیں پہنچایا۔ دوسرا قول یہ ہے اگر تم نے نہ پہنچایا تو آپ اس شخص کی طرح ہیں جس نے بالکل نہ پہنچایا۔ تیسرا قول یہ ہے آپ اس پیغام کو پہنچائیں کسی کا خوف کئے بغیر۔ اگر آپ نے اس وصف کے ساتھ نہ پہنچایا تو گویا آپ نے رسالت کو بالکل نہیں پہنچایا۔ پھر آپ کو حوصلہ دلانے کے لئے فرمایا۔ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِاللہ تعالیٰ قتل سے آپ کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ وہ اس پر قدرت نہ پائیں گے۔ اگرچہ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک احد کے دن زخمی ہوا اور آپ کا نچلا سامنے والا دایاں دانت شہید ہوا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیات ان تکالیف کے پہنچنے کے بعد اتریں۔ الناس سے مراد کفار ہیں۔ اس کی دلیل یہ ارشاد خداوندی ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ یعنی ان کے لئے ممکن نہ ہوسکے گا۔ جن کا وہ آپ کی ہلاکت کے سلسلے میں ارادہ باندھ رہے ہیں۔
Top