Tafseer-e-Jalalain - Al-Qalam : 47
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجانا كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں بَطَرًا : اتراتے وَّرِئَآءَ : اور دکھاوا النَّاسِ : لوگ وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : سے۔ جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطٌ : احاطہ کیے ہوئے
اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو اتراتے ہوئے (یعنی حق کا مقابلہ کرنے کے لئے) اور لوگوں کو دکھانے کے لئے گھروں سے نکل آئے اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکتے ہیں۔ اور جو اعمال یہ کرتے ہیں خدا ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔
ولا تکونوا کا لذین خرجوا من دیار ھم بطراو وران الناس مشرکین مکہ جب مکہ سے نکلے تو اتراتے ہوئے بڑے فخر و غرور کے ساتھ نکلے مسلمانوں کو اس شیوہ سے منع کیا جارہا ہے۔ لشکر کفار کی بدر کی طرف روانگی : کفار کا لشکر مکہ سے اس شان سے نکلا تھا کہ گانے بجانے والی لونڈیاں ساتھ تھیں، جگہ جگہ ٹھہر ٹھہر کر رقص و سرود اور شراب نوشی کی محفلیں سجاتے جارہے تھے اور جو قبیلے اور قریہ راستہ میں ملتے تھے اب پر اپنی طاقت و شوکت اور اپنی تعداد اور اپنے سازوسامان کا رعب جماتے تھے اور ڈینگیں مارتے تھے کہ بھلا ہمارے مقابلہ میں کون سر اٹھا سکتا ہے۔ کفار کے نکلنے کا مقصد یہ نہ تھا کہ حق و انصاف کا جھنڈا بلند ہو، بلکہ اس لئے نکلے تھے کہ ایسا نہ ہونے پائے، اور وہ واحد جماعت جو اس مقصد عظیم کے لئے دنیا میں اٹھی ہے اس کو ختم کردیا جائے تاکہ حق و انصاف کے پرچم کو اٹھانے والا دنیا میں کوئی نہ رہے، اس پر مسلمانوں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ تم کہیں ایسے نہ بن جانا، تمہیں اللہ نے ایمان اور حق پرستی کی نعمت دی ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ تمہارے اخلاق میں پاکیزگی ہو تمہارا مقصد جنگ بھی پاک ہو۔ یہ ہدایت آج بھی باقی ہے : یہ ہدایت اسی زمانہ کے لئے نہ تھی آج کے لئے بھی ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے، کفار کی فوجوں کا جو حال اس وقت تھا وہی آج بھی ہے قحبہ خانے اور فواحش کے اڈے اور شراب کے پیسے ان کے ساتھ جزء لاینفک کی طرح لگے رہتے ہیں، بےشرمی کے ساتھ عورتیں اور شراب کا زیادہ سے زیادہ راشن مانگتے ہیں، اور فوج کے سپاہیوں کو خود اپنی ہی قوم سے یہ مطالبہ کرنے میں باک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بڑی سے بڑی تعداد میں ان کی شہوتوں کا کھلونا بننے کے لئے پیش کرے پھر بھلا دوسری قوم ان سے کیا امید رکھ سکتی ہے اس کو اپنی اخلاقی گندگی کی سنڈ اس بنانے میں کسر اٹھارکھیں گے، بوسینیا ہر زے گو وینیاں میں جو کچھ ہوا وہ اس کی تازہ مثال ہے، رہا ان کا تکبر اور تفاخر تو ان کے ہر سپاہی کی چال ڈھال اور انداز گفتگو میں وہ نمایاں دیکھا جاسکتا ہے، ان اخلاقی نجاستوں سے ریادہ ناپاک ان کے مقاصد جنگ ہیں ان میں سے ہر ایک نہایت مکاری کے ساتھ دنیا کو یقین دلاتا ہے کہ اس کے پیش نظر انسانیت کی فلاح اور دہشت گردی کے خاتمہ کے سوا کچھ نہیں ہے مگر درحقیقت ان کے پاس پیش نظر ایک فلاح انسانیت ہی نہیں باقی جب کچھ ہے، ان کی جنگ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدا نے اپنی زمین میں جو کچھ تمام انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے اس پر تنہا ان کی قوم متصرف ہو اور دوسرے اس کے نوکر چاکر اور غلام اور دست نگر بن کر رہیں، پس اہل ایمان کو قرآن کی دائمی ہدایت ہے کہ ان فساق و فجار کے طور طریقوں سے بھی بچیں اور ان ناپاک مقاصد میں بھی اپنی جان و مال کھپانے سے پرہیز کریں جن کے لئے یہ لوگ لڑتے ہیں۔ مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ابو سفیان اپنا تجارتی قافلہ لے کر مسلمانوں کی زد سے بچ نکلے تو ابو جہل کے پاس قاصد بھیجا کہ اب تمہارے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، واپس آجاؤ اور قریشی سرداروں کی بھی یہی رائے تھی مگر ابو جہل اپنے کبرو غرور اور شہرت پرستی کے جذبہ سے قسم کھا بیٹھا کہ ہم اس وقت واپس نہ ہوں گے جب تک چند روز مقام بدر میں پہنچ کر اپنی فتح کا جشن نہ منالیں، جس کے نتیجے میں وہ اور اس کے بڑے بڑے ساتھی وہیں ڈھیر ہوگئے اور ایک گڑھے میں ڈالدیئے گئے۔
Top