Madarik-ut-Tanzil - At-Tawba : 58
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِ١ۚ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) يَّلْمِزُكَ : طعن کرتا ہے آپ پر فِي : میں الصَّدَقٰتِ : صدقات فَاِنْ : سو اگر اُعْطُوْا : انہیں دیدیا جائے مِنْهَا : اس سے رَضُوْا : وہ راضی ہوجائیں وَاِنْ : اور اگر لَّمْ يُعْطَوْا : انہیں نہ دیا جائے مِنْهَآ : اس سے اِذَا : اسی وقت هُمْ : وہ يَسْخَطُوْنَ : ناراض ہوجاتے ہیں
اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ (تقسیم) صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اگر انکو اس میں سے (خاطر خواہ) مل جائے تو خوش رہیں اور اگر (اس قدر) نہ ملے تو جھٹ خفا ہوجائیں۔
صدقات میں طعنہ زنی : آیت 58: وَمِنْھُمْ (اور ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں) منافقین میں سے مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ (جو صدقات کے بارے میں آپ پر طعن کرتے ہیں) صدقات کی تقسیم میں آپ پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْھَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْھَآ اِذَا ھُمْ یَسْخَطُوْنَ (پس اگر ان صدقات میں سے ان کو مل جاتا ہے تو وہ راضی ہوجاتے ہیں اور اگر ان کو نہیں ملتا تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں) اِذَا، مفاجات کیلئے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ان کو نہ ملے تو اچانک ناراض ہوجاتے ہیں۔ منافقین کی یہ حالت بیان کی کہ ان کی ناراضگی یا رضا مندی ذاتی ہے۔ دینی نہیں اور نہ ہی اہل اسلام کیلئے ہے۔ آپ ﷺ نے غزوئہ حنین کے موقعہ پر اہل مکہ کی دلجوئی کیلئے ان کو غنائم میں سے کثرت سے مال عنایت فرمایا۔ اس پر منافقین کو تنگی اور اکتاہٹ محسوس ہوئی۔
Top