Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 58
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِ١ۚ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) يَّلْمِزُكَ : طعن کرتا ہے آپ پر فِي : میں الصَّدَقٰتِ : صدقات فَاِنْ : سو اگر اُعْطُوْا : انہیں دیدیا جائے مِنْهَا : اس سے رَضُوْا : وہ راضی ہوجائیں وَاِنْ : اور اگر لَّمْ يُعْطَوْا : انہیں نہ دیا جائے مِنْهَآ : اس سے اِذَا : اسی وقت هُمْ : وہ يَسْخَطُوْنَ : ناراض ہوجاتے ہیں
ان میں سے وہ بھی ہیں جو آپ پر طعن کرتے ہیں صدقات کے بارے میں اگر انھیں دے دیا جائے ان سے تو خوش ہوجاتے ہیں اور اگر انھیں نہ دیا جائے ان سے تو برہم ہوجاتے ہیں۔
وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ ج فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْھَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْھَآ اِذَا ھُمْ یَسْخَطُوْنَ وَلَوْاَنَّھُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰـھُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ لا وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَرَسُوْلُہٗٓ لا اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ ع ( التوبۃ : 58 تا 59) (ان میں سے وہ بھی ہیں جو آپ پر طعن کرتے ہیں صدقات کے بارے میں اگر انھیں دے دیا جائے ان سے تو خوش ہوجاتے ہیں اور اگر انھیں نہ دیا جائے ان سے تو برہم ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ اس پر قانع رہتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے اور کہتے کہ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اللہ ہمیں اپنے فضل سے نوازے گا اور اس کا رسول بھی ہم تو اللہ ہی کی طرف رغبت کرنے والے ہیں۔ ) غریب منافقین کا حال سابقہ آیات میں مالدار منافقین کا حال بیان ہوا ہے۔ اب یہ غیر مالدار منافقین کا حال بیان ہورہا ہے۔ نفاق میں دونوں یکساں ہیں۔ دونوں کو مجبوریوں نے مسلمان معاشرے میں رہنے پر مجبور کررکھا ہے۔ جس طرح مالدار منافقین خوف کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ متعلق ہیں اسی طرح یہ غریب لوگ بھی طمع کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جہاں تک ان کے نفاق کا تعلق ہے تو ان کا حال یہ ہے کہ اگر تو نبی کریم ﷺ زکوٰۃ وعشر کے مال میں سے انھیں نوازتے رہیں تو یہ خوش رہتے ہیں اور بڑھ بڑھ کر دوسروں سے زیادہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر آنحضرت دوسروں کا خیال کرتے ہوئے ان سے ہاتھ روکتے ہیں تو یہ ناراض ہو کر عیب چینی شروع کردیتے ہیں کہ دوسروں کو تو فیاضی سے دیا جارہا ہے اور ہمیں ہمارے حق کے مطابق بھی نہیں دیا جارہا۔ اندازہ فرمائیے ! جو شخص اللہ کے رسول پر بھی بےانصافی کا عیب لگائے اور ان کی تقسیم پر راضی نہ ہو اس کے اندر ایمان کی رمق کہاں آسکتی ہے دوسری آیت کریمہ میں بتانا تو مسلمانوں کو مقصود ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مسلمان اسی کی تصویر تھے لیکن سنایا منافقین کو جارہا ہے کہ اگر تم میں ایمان کی کچھ بھی رمق ہے تو پھر اس کا تقاضا وہ طرز عمل نہیں جو تم نے اختیار کررکھا ہے بلکہ اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ جتنا تم مال و دولت پر فریفتہ ہو اس سے کہیں بڑھ کر تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے تعلق ہونا چاہیے اس تعلق کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ کہ اللہ تمہیں اپنے خزانہ کرم سے جو کچھ عطا فرماتا ہے اور اللہ کے رسول اللہ کے احکام کے مطابق جو کچھ تمہیں دیتے ہیں تمہیں اس پر قانع رہنا چاہیے۔ مال میں کمی بیشی کی شکایت بےایمان لوگوں کا کام ہے۔ تمہارا اصل کام اور تمہاری پہچان مال و دولت نہیں بلکہ اللہ سے تعلق ہے اس لیے تمہیں ہمیشہ یہ کہنا چاہیے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے۔ اس نے پہلے بھی ہمیں دیا ہے اور آئندہ بھی اپنے فضل و کرم سے ہمیں عطا فرمائے گا اور اس کے رسول بھی مزید ہم پر مہربانی فرمائیں گے کیونکہ ہم مال و دولت کے پجاری نہیں نہ اس کے حریص ہیں بلکہ ہماری منزل تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ ہم اسی کے چاہنے والے اور اسی کے لیے جان دینے والے ہیں۔
Top