Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 58
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِ١ۚ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) يَّلْمِزُكَ : طعن کرتا ہے آپ پر فِي : میں الصَّدَقٰتِ : صدقات فَاِنْ : سو اگر اُعْطُوْا : انہیں دیدیا جائے مِنْهَا : اس سے رَضُوْا : وہ راضی ہوجائیں وَاِنْ : اور اگر لَّمْ يُعْطَوْا : انہیں نہ دیا جائے مِنْهَآ : اس سے اِذَا : اسی وقت هُمْ : وہ يَسْخَطُوْنَ : ناراض ہوجاتے ہیں
اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں کہ مال زکوٰۃ بانٹنے میں تجھ پر عیب لگاتے ہیں پھر حالت ان کی یہ ہے کہ اگر انہیں اس میں سے دیا جائے تو خوش ہوجائیں نہ دیا جائے تو بس اچانک بگڑ بیٹھیں
ان میں کچھ ایسے ہیں کہ مال زکوٰۃ کی غلط تقسیم کا آپ ﷺ پر عیب لگاتے ہیں : 80: مال دار منافقین کا معاملہ تو وہ تھا جو پچھلی آیت میں گزر چکا اب یہ ان منافقین کا حال ہے جو کمزور قسم کے تھے یعنی جن کے ہاں مالی ریل پیل نہیں تھی ان کو صرف اس حالت ہی نے مسلمانوں کے ساتھ باندھ رکھا تھا ان کا حال یہ تھا کہ اگر ان کو مال زکوٰۃ اور صدقات کی دوسری مددوں میں سے خوب مال مل جاتا تو خوش ہوتے اور ہاں میں ہاں ملاتے رہتے اور اگر کسی وجہ سے جتنا مال مل جانے کی ان کو امید ہوتی اتنا نہ مل سکتا تو روٹھ جاتے اور دوسرے مسلمانوں کے علاوہ خود نبی کریم ﷺ کی ذات پر بھی الزام تھوپ دیتے اور عیب چینی شروع کردیتے کہ دوسروں کو تو فیاضی سے دیا جا رہا ہے لیکن ان کو ان کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اس کی کئی ایک شکلیں ہو سکتی تھیں مثلاً ایک سال ان کو ایک خطیر رقم مل گئ اور آنے والے سال میں اتنی رقم نہ ملی تو انہوں نے پچھلے سال ملنے والی رقم کو اپنا حق سمجھ لیا اور الزام کی ایک شکل پیدا کرلی۔ اس طرح کسی جنگ میں سے مال غنیمت آیا تو اس کی تقسیم میں سے ان کو زیادہ مل جانے کی امید ہوئی اور اگر ان کی امید کے مطابق یا اس سے زیادہ مل جاتا تو خوش ہوجاتے لیکن اگر ان کی اپنی تجویذ شدہ رقم سے کم ملتا تو کوئی نہ کوئی الزام دھر دیتے اور انہوں نے کبھی یہ خیال نہ کیا کہ ادھر تقسیم کرنے والے اللہ کے رسول ﷺ ہیں جن کی کوئی حرکت بھی اپنی ذاتی خواہش اور مرضی سے نہیں ہوتی بلکہ وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ عین مرضی الٰہی کے مطابق کرتے ہیں پھر ان کو کیا حق ہے کہ وہ اس طرح کی باتیں بنائیں۔ حالانکہ اگر وہ حسن ظن سے کام لیتے تو یہ ان کے حق میں اچھا ہوتا لیکن آخر وہ حسن ظن سے کام لیتے کیوں ؟ اس لئے کہ اس کا تعلق تو ایمانیات سے ہے اور ایمان کی دولت سے تو وہ پہلے ہی محروم تھے وہ تو اسلام کے لباس میں محض دفعہ الوقتی کے لئے ملبوس تھے۔ ان کے پاس ایمان کی دولت تھی کہاں ؟ ان کا مقصد تو محض حاصل کرنا تھا اوہ ان کو مل جاتا تو خوش ہوجاتے اور اگر نہ ملتا یا توقع کے مطابق نہ ملتا بلکہ اس سے کم ملتا تو آپ ﷺ کی ذات اقدس پر بھی زبان دراز کرنے سے باز نہ آتے اور زبان طعن دراز کرنے لگتے۔
Top