Mafhoom-ul-Quran - Yunus : 13
وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا١ۙ وَ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ مَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا١ؕ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ
وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا : اور ہم نے ہلاک کردیں الْقُرُوْنَ : امتیں مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَمَّا : جب ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا وَجَآءَتْھُمْ : اور ان کے پاس آئے رُسُلُھُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیوں کے ساتھ وَمَا : اور نہ كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا : ایمان لاتے تھے كَذٰلِكَ : اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیتے ہیں الْقَوْمَ : قوم الْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کی
اور تم سے پہلے کئی امتوں کو جب انہوں نے ظلم اختیار کیا ہم ہلاک کرچکے ہیں اور ان کے پاس پیغمبر کھلی نشانیاں لے کر آئے، مگر وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے۔ ہم گنہگاروں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں
ظالموں کی تباہی، قرآن کی عظمت اور کھلا ثبوت تشریح : ان آیات کا پچھلی آیات سے ربط ہے۔ ان میں بھی مکہ کے لوگوں کو ہی مخاطب کر کے قرآن پاک میں اللہ کے بتائے ہوئے فوائد، قانون اور اصول بتائے جا رہے ہیں۔ یہاں وضاحت کردی گئی ہے کہ یہ قانون قدرت ہے کہ جب ایک قوم اپنی اچھائیوں سے دور اور اللہ کی رحمتوں سے غلط فائدے اٹھا کر برائی، بدکاری، عیش و آرام اور فسق و فجور کے راستوں پر چلنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی جگہ کسی دوسری قوم کو لے آتے ہیں جو اس بگاڑ کو سنوار میں بدل سکے تاکہ انسانیت امن و سکون سے پنپ سکے جب ہم تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں بیشمار مثالیں مل سکتی ہیں ماضی قریب میں ہندوستان، سپین ایران اور روس کی مثالیں موجود ہیں۔ مسلمانوں نے عیش و عشرت اور مذہب سے دوری اختیار کی تو انگریزوں کو ان پر مسلط کردیا گیا اسی طرح دوسرے ممالک بھی انقلاب سے دوچار ہوتے رہے تو اب مکہ کے لوگوں نے آنحضرت ﷺ پر اعتراض کرنے شروع کیے تو اللہ رب العزت ان کو بتا رہا ہے کہ ان کو تمام سوالوں کے جواب اس طرح دو ۔ یہ جوابات صرف ان مکہ کے مشرکین کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر دور کے غلط عقیدہ رکھنے والوں کے لیے ہیں۔ آج بھی ہر جگہ اور ہر ملک میں اس طرح کے شریر لوگ موجود ہیں۔ کچھ کفار و مشرکین ہیں اور کچھ غافل مسلمان بھی ہیں تو ان تمام لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اصول بیان کیے جا رہے ہیں۔ پہلے تو یہ کہ نااہل بدکردار قوموں کو ہٹا کر یا تباہ کر کے دوسری بہتر قوم لائی جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ جب بھی کوئی امیر، سردار، لیڈر، استاد، ماہر طبیعات، ماہر قانون، ماہر اقتصادیات غرض کوئی بھی شعبہ ہو اس کے انچارج کو مقرر کرو تو اس بات کا پورا پورا خیال رکھو اور اس کی پچھلی تمام گزاری ہوئی زندگی کو خوب اچھی طرح جانچ کر مناسب ترین انسان کو اختیارات دیے جائیں۔ یہ بالکل غلط ہے کہ کسی بدمعاش یا کسی بد کردار کو امیر، سربراہ یا انچارج بنا دیا جائے۔ بلکہ جس کو یہ کام سونپا جائے اس میں اس کو بہترین طریقہ سے کرنے کی تمام صلاحیتیں موجود ہونی چاہئیں۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لیے چنا۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ قرآن پاک اللہ کا کلام ہے۔ نبی اکرم ﷺ تو امی (پڑھے لکھے نہ تھے) وہ بھلا یہ تمام حکمت کی باتیں اور عالم ازل سے ابد تک انسان کی کہانی (1) انسان کی حقیقت زمان و مکان میں اس کی تقریر۔ (2) روح، نفس زندگی اور جسم کی حقیقت۔ (3) موت اور موت کے بعد کے واقعات۔ (4) عالم غیب کے حالات۔ (5) عالم برزخ، محشر، روز جزا، جنت، اعراف اور دوزخ کے حقائق۔ یہ سب کچھ ایک امی کیسے جان سکتا ہے۔ یہ تو وہی ذات پاک جان سکتی ہے جس نے یہ کائنات بنائی اور پھر اس کی تشکیل کے مقاصد بتائے انسان کو اس کائنات میں رہنا اور اس کی ہر چیز کو بہترین طریقہ سے استعمال کرنا سکھایا اور اس علم دینے کا ذریعہ اس کتاب کو بنایا جو آنحضرت ﷺ پر وحی کے ذریعہ نازل کی گئی، یعنی قرآن مجید۔ چوتھا اصول یہ بتایا گیا کہ اس قرآن کی کوئی آیت تبدیل ہرگز نہیں کی جاسکتی۔ یہ بڑازبردست گناہ اور اللہ پر بہتان لگانے کے برابر ہے۔ ویسے تو قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود اپنے ذمہ لے رکھا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ پچھلی تمام آسمانی کتابوں میں لوگوں نے خود اپنی مرضی سے آیات کو تبدیل کردیا جبکہ قرآن پاک چودہ سو سال سے بالکل اپنی اصل عبارت، اصل آیات اور اصل کیفیت کے ساتھ دنیا میں موجود ہے اور قیامت تک رہے گا یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ پانچواں حکم یہ ہے کہ کلام پاک کی آیات کو تبدیل کرنے کا جو سوچے تو وہ جان لے کہ اس سے بڑا گناہ اور کوئی ہو نہیں سکتا کیونکہ یہ اس عظیم، علیم قادر مطلق کا کلام ہے جو بےمثال ہے وحدہٗ لا شریک لہ ہے۔ تو ایسی سوچ کے بندے پر اللہ کا بڑا عذاب نازل ہوسکتا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ چھٹا نکتہ جو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ دنیا میں انسان کو خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے۔ انسان کو عزت، دولت، شہرت، زندگی اور اختیار و ارادہ اس لیے دیا گیا ہے کہ اللہ اسکی آزمائش کرے جو شخص ان تمام نعمتوں سے ناجائز فائدہ اٹھائے گا تو وہ ضرور ذلیل و خوار ہوگا۔
Top