Baseerat-e-Quran - Yunus : 13
وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا١ۙ وَ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ مَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا١ؕ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ
وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا : اور ہم نے ہلاک کردیں الْقُرُوْنَ : امتیں مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَمَّا : جب ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا وَجَآءَتْھُمْ : اور ان کے پاس آئے رُسُلُھُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : کھلی نشانیوں کے ساتھ وَمَا : اور نہ كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا : ایمان لاتے تھے كَذٰلِكَ : اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیتے ہیں الْقَوْمَ : قوم الْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کی
اور یقینا تم سے پہلے ہم نے بہت سی قوموں کو تہس نہس کردیا تھا۔ حالانکہ ان کے پاس ہمارے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے جس پر وہ ایمان نہ لائے اس طرح ہم مجرم قوم کو سزا دیا کرتے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 13 تا 14 اھلکنا (ہم نے ہلاک کیا) القرون (قومیں، نسلیں) نجزی (ہم بدلہ دیتے ہیں) خلتف (قائم مقام، نئاب، خلیفہ) لننطر (تاکہ ہم دیکھیں) تشریح :- آیت نمبر 13 تا 14 قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پوری وضاحت سے ارشاد فرمیا ہے کہ نافرمانیوں، گناہوں اور ظلم و بغاوت پر جری ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ لوگوں کی فوراً ہی گرفت نہیں کرتا بلکہ وہ حلیم و کریم ہے وہ اپنے بندوں کو ایک خاص مدت تک مہلت عمل اور ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے تاکہ وہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر اپنے لئے بہتر اور مناسب راستہ کا انتخاب کرسکیں ۔ لیکن اگر پھر بھی وہ اپنی روش زندگیک و تبدیل نہیں کرتے تب ان پر اللہ کا فیصلہ آجاتا ہے اور ساری قوتوں اور طاقتوں کے باوجود تباہ و برباد کر رہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ شان کریمی ہے کہ وہ غفلت اور گناہوں میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی اصلاح کے لئے ایسے پاکیزہ نفس انسانوں یعنی اپنے رسولوں اور نبیوں کو بھیجتا رہا ہے جنہوں نے ان کو گناہوں کی دلدل سے نکالنے اور برے انجام سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کیں۔ تمام پیغمبروں کے بعد اللہ تعالیٰ نے فخر کائنات نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو آخری رسول اور آخری نبی بنا کر بھیجا جنہوں نے بہت تھوڑی مدت میں ایسے لاکھوں جاں نثاروں کی پاکیزہ جماعت تیار فرمائی جو قیامت تک زندگی کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ اب چونکہ نبوت و رسالت کا دروازہ قیامت تک کے لئے بند ہوچکا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایسے انتظامات فرما دیئے ہیں کہ قرآن و سنت اور اس کی تعلیمات قیامت تک محفوظ رہیں گی اب حاملین قرآن و سنت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی طرح ساری دنیا میں ان سچائیوں کو پھیلان کے ذمہ دار بنا دیئے گئے ہیں۔ چونکہ قرآن کریم کے مخاطب اول مکہ مکرمہ کے لوگ ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ مکہ والوں سے ارشاد فرما رہے ہیں کہ اے مکہ کے لوگو ! تم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہو کہ تم سے پہلے بہت سی وہ قومیں گذر چکی ہیں جن کی بستیوں پر سے تم گذرتے ہو۔ ان کے کھنڈرات اس بات کے گواہ ہیں کہ ہر طرح کی قوت و طاقت رکھنے کے باوجود جب انہوں نے نافرمانیوں اور بدکاریوں کے طریقے اختیار کئے اور اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کی نافرمانی کی تو پھر ان پر وہ عذاب مسلط کئے گئے جن سے انہیں بچانے والا کوئی نہ تھا۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اے مکہ والو ! اگر تم نے خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کے دامن اطاعت سے وابستگی اختیار کرلی تو تمہاری نجات کا سامان ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ان کی نافرمانی کی گئی تو قیامت تک تم اللہ کی رحمت سے محروم رہ جائو گے۔ ان آیات میں جہاں مکہ والوں سے خطاب ہے وہیں قیامت تک آنے والے اہل ایمان کو بھی بتا دیا گیا ہے کہ تاریخ کے اس آئینہ میں تم اچھی طرح دیکھ لو کہ جن قوموں نے ظلم ، بغاوت اور نافرمانیوں کے راستے کا انتخبا کیا وہ دنیا سے حرف غلط کی طرح مٹا دی گئیں۔ اب تم گزشتہ قوموں کے بعد ان کی جگہ پر موجود ہو دیکھا یہ جائے گا کہ تم اللہ کے سامنے اپنے حسن عمل یا فرماں برداری کا انداز اختیار کر کے اپنا نامہ اعمال کس طرح مرتب کرتے ہو ؟ اگر تم نے بھی وہی روش اختیار کی جس کی وجہ سے پچھلی قومیں تباہ و برباد کردی گئیں تو پھر اللہ کی سنت یعنی اس کا متعین اور اٹل قانون یہ ہے کہ جہاں وہ حسن عمل کرنے والوں کی چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر بےانتہا اجر وثواب عطا فرماتا ہے وہیں جب وہ نافرمانیوں پر گرفت کرتا ہے تو اس سے بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔
Top