بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Ar-Ra'd : 1
الٓمّٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ١ؕ وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ
الٓمّٓرٰ : الف لام میم را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب وَالَّذِيْٓ : اور وہ جو کہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب کی طرف سے الْحَقُّ : حق وَلٰكِنَّ : اور لیکن (مگر) اَكْثَرَ النَّاسِ : اکثر لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
الۗمّۗرٰ ۔ یہ کتاب کی آیتیں ہیں جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوئی ہے یہ سچ ہے، مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
قرآن کی حقانیت اور منزّل من اللہ ہونے کی دلیل تشریح : اس سورت کا آغاز حروف مقطعات سے کیا گیا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ آیات مبارکہ اس کتاب کی ہیں جو بالکل سچ اور حق ہے اس میں رشدو ہدایت دنیا و آخرت اور حق و باطل کو ایسے بہترین انداز سے واضح کر کے سمجھا دیا گیا ہے کہ ایسا کلام پیش کرنا کسی بہترین عالم و فاضل اور لائق فائق انسان کے بس کی بات نہیں۔ اس کتاب میں زندگی کے حقائق اس خوبصورتی سے بیان کیے گئے ہیں کہ ایک عام عقل رکھنے والا انسان بھی اس کی حققیت کو سمجھ سکتا ہے اور اگر ایک عالم و فاضل، پڑھا لکھا سائنسدان، انجینئر، محقق اس کو گہری نظر سے سوچ سمجھ کر پڑھے تو وہ اس میں سے بیشمار راز جو کائنات میں چھپے ہوئے ہیں ڈھونڈ کر انسانیت کی مزید سہولیات کے لیے دنیا کے سامنے پیش کرسکتا ہے، مثلاً (1) توحید الٰہی (2) تصور آخرت، جزا و سزا (3) وحی الٰہی۔ ان تینوں اعتقادات کے مطابق انسان بہترین زندگی گزار کر آخرت میں انعام کا مستحق بن سکتا ہے اسی لیے یہ قرآن پاک بالکل سچی کتاب ہے۔ کہ اس میں ازل سے ابد تک کے تمام وہ راز بتا دیے گئے ہیں جو کسی بھی سائنس دان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوسکتے۔ کوئی نہیں ثابت کرسکتا کہ روح کیا ہے ؟ آخرت میں کیا ہوگا ؟ دنیا کب شروع ہوئی اور کب اس کا خاتمہ ہوجائے گا ؟ مگر قرآن پاک میں ان تمام رازوں کو بڑے اچھے انداز سے اشاروں کنایوں میں بتا دیا گیا ہے۔ پھر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی تمام باتیں ان کفار کے لیے ناقابل یقین ہیں کیونکہ ان کے لیے اللہ کا واحد ہونا اس کا قادرمطلق ہونا، وحی کے ذریعے قرآن پاک کا نازل ہونا اور نبی اکرم ﷺ کا اللہ کا رسول ہونا، یہ سب ان کی عقل سے باہر ہے، اس لیے اکثر لوگ آپ پر ایمان نہیں لاتے۔ کیونکہ ان لوگوں کے مشاہدات، اعتقادات اور نظریات بالکل متفرق ہیں جبکہ دین اسلام ایک ایسی سچائی ہے کہ جو تحقیقات، تجربات اور علوم و فنون کی زیادتی سے اور بھی زیادہ نکھرتی چلی جا رہی ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ان تمام کاموں میں اللہ، رسول اور قرآن پر پکا یقین ہو۔ کیونکہ اس یقین کے بغیر ہر علم، ہر تحقیق اور ہر تجربہ اللہ اور اس کے دین کی نفی کرتا ہے۔ جاہل لوگ تو اس لیے انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے آنکھ ہی ایسے ماحول میں کھولی کہ جہاں بت پرستی، جانور پرستی، ستارہ پرستی وغیرہ کی جاتی تھی۔ بجائے اس کے کہ وہ ان تمام چیزوں کو دیکھ کر اللہ کی موجودگی تک پہنچتے وہ اللہ کو ماننے سے ہی انکار کردیتے ہیں۔ مگر بیسویں صدی کی دوسری چوتھائی میں درجنوں مشہور مفکرین کے نام موجود ہیں جو اللہ کو مشاہدہ میں نہ ہونے کی وجہ سے اس سے انکار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دنیا کا نظام سائنسی کمالات سے خود بخود چل رہا ہے۔ وہ اتنا سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے کہ آخر یہ سائنسی کمالات پیدا کس نے کیے ہیں ؟ مثلاً ہیوم، (Hume) مل (mill) رسل (Russel) اور جو لین ہکسلے اور پھر طبیعاتی دنیا کا ہیرو نیوٹن یہ سب نظام کائنات کو خود کار نظام بتاتے ہیں اور اللہ کے وجود سے انکار کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ وہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے۔ اگلی آیات میں اللہ کی حکمت، کاری گری اور بہترین، بےمثال اور لاجواب تخلیقات کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔
Top