Mafhoom-ul-Quran - Az-Zumar : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکتے رہیں (جو لوگ یہ کام کریں گے) وہی فلاح پائیں گے
نیکی اور بدی کا انجام تشریح : ان آیات میں اللہ تعالیٰ پھر لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہوئے یاد دلاتے ہیں کہ حساب کا دن ضرور یاد رکھو اور جان لو کہ وہ دن ضرور آئے گا اور یہ بھی جان لو کہ بدلہ ملنے میں کسی شخص پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تو اپنے بندوں پر ہر وقت رحم و کرم کرنا چاہتا ہے اسی لیے ہر وقت خبردار کرتا ہے کہ دیکھو بھول کر کہیں غلط راستے پر نہ چل پڑنا۔ کیونکہ غلط راہ ہر صورت میں انسان کے لیے نقصان دہ ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، پھر نیکی میں یہ بھی شامل ہے کہ تم چاہے ایک فرد ہو یا ایک جماعت کی شکل میں ہو، ہر وقت اس مہم کو سامنے رکھو کہ جہاں بھی برائی ہوتے دیکھو اس کو ہر صورت روکنے کی کوشش کرو اور نیکی کا حکم ہر صورت دو ۔ یہ مسلمان کا سب سے بڑا کام ہے اور ایسے لوگوں کو اللہ رب العزت دہرا ثواب دیں گے اور پھر اس کام کے لیے علم و حکمت میں ماہر ہونا ضروری ہے الحمدللہ کہ آج کل پاکستان میں اور باہر کے ملکوں میں یوں کہنا ٹھیک ہے کہ ساری دنیا میں ہی بہت سی ایسی جماعتیں یا گروہ دیکھنے میں آرہے ہیں جو اس کام کو، یعنی تبلیغ اسلام میں بڑی کوشش اور محنت کر رہے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کی مدد فرمائے۔ اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے کہ تم مسلمان لوگ ایسے ہرگز نہ ہوجانا جیسا کہ تم سے پہلے یہود و نصارٰی نے کیا ہے کہ باوجود اس کے ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام ہدایات آچکی تھیں مگر انہوں نے پھر بھی گمراہی کے راستے اختیار کئے خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہی کی تر غیب دی تو ایسے ہی لوگوں کے لیے بڑے سخت عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ حشر کے دن سخت مشکل میں ہوں گے، پریشانی اور ندامت کی وجہ سے ان کے چہرے سیاہ ہوں گے اور بڑے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو ایک بدکردار شخص کے چہرے پر برائی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں اور اندرونی کشمکش جو برے کاموں کی وجہ سے انسان کے دل و دماغ کو بےسکون کئے رکھتی ہے وہ بھی چہرے پر برے اثرات پیدا کرتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس ایک نیک اور اچھے انسان کا چہرہ بڑا پرسکون اور نورانی ہوتا ہے ایسے ہی نیک اور اچھے لوگوں کے بارے اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن ان لوگوں کے چہرے چمک رہے ہوں گے اور وہ لوگ بڑے ہی سکون میں ہوں گے۔ نہ ان کو خوف ہوگا اور نہ ہی کوئی غم۔ اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ایسے لوگوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہونگی۔ یہ سب کچھ بتانے کے بعد اللہ رب العزت پھر تاکید کرتا ہے کہ یہ تمام باتیں جو بتائی گئی ہیں یہ بالکل سچ ہیں۔ ان میں ایک ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہیں جیسا کہ شروع میں بتایا گیا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے بندوں سے بےحد پیار کرتا ہے۔ اس نے تو زمین و آسمان اور اس کی ہر چیز انسانوں کے لیے ہی پیدا کی ہے اور پھر یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس تمام کائنات کا بندوبست بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، ہر چیز، ہر انسان اور اس کی ہر حرکت حتی کہ اس کی نیت سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی بےگناہ کو سزا دے دے اور کسی گناہ گار کو بہترین انعام دے دے۔ یہ بھول چوک انسان سے تو ہوسکتی ہے مگر اللہ رب العزت سے ہرگز نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اپنے کاموں کو انسان خود بھی دیکھ لے گا اور اس کو خوب اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ یہ سزا یا جزا جو اس کو دی گئی ہے۔ یہ بالکل ٹھیک دی گئی ہے۔ غلط نہیں دی گئی۔ اس کا ثبوت تھوڑا سا ہمیں ٹیلی ویژن سے بھی مل رہا ہے کہ ہم ایک مدت کے مرے ہوئے انسان کو سکرین پر (جو بھی کردار اس نے ادا کیا تھا) اس کے مرنے کے بعد بھی اسی طرح اس کو دیکھ سکتے ہیں۔ سن سکتے ہیں، ہم تو خیر مسلمان ہیں ہمارا تو یقین ہے کہ قیامت آئے گی بدلہ ضرور ملے گا۔ اللہ کے حضور ہم ضرور پیش کئے جائیں گے۔ لیکن وہ سائنس دان جو ہر چیز کا ثبوت مانگتے ہیں خود ہی ان تمام پیشگوئیوں کے ثبوت اپنے سامنے پیدا کر رہے ہیں۔ اور یوں قرآنی آیات کا برحق ہونا ساری دنیا کے سامنے روز روشن کی طرح ظاہر ہو رہا ہے۔ مسلمان آخرت اور حساب کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسی لیے وہ ہر وقت اپنے اعمال پر نظر رکھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھتے ہوئے نماز، روزے، امانت، دیانت، پرہیزگاری، پاکبازی، خدا ترسی اور فرض شناسی کو اپنی فطرت کا ایک حصہ بنا لے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو اس بہترین راستہ سے ہٹا نہ سکے۔ ایمان کی روشنی کو دنیا کے ہر کونے میں پہنچا دینے کی پوری کوشش کرے اور یوں دنیا و آخرت میں ترقی اور نجات حاصل کرے۔
Top