Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
پس چاہیئے کہ تم میں ایک ایسی جماعت ہو جو خیر کی دعوت دے اور معروف کا حکم کرے اور برائی کے کاموں سے منع کرے۔ اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔
ربط آیات : گزشتہ دروس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل کتاب کی بات ماننے سے منع فرمایا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جو کوئی اللہ کو مضبوطی سے پکڑے گا ، اس پر ایمان لا کر اس کے حکم کا اتباع کرے گا اور اسی پر بھروسہ کرے گا۔ اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت نصیب ہوگی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح ڈرتے رہو ، جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔ اور ساتھ ہی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی نصیحت فرمائی۔ اور آپس میں تفریق پیدا کرنے کی بجائے بھائی بھائی بن کر رہنے کی تلقین فرمائی۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ جو ان ہدایات پر عمل کرے گا ، وہی کامیاب و کامران ہوگا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی ذاتی صلاح کے لیے ایک پروگرام دیا تاکہ اس پر عمل پیرا ہو کر فلاح حاصل کرسکے۔ آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے ذاتی کے بعد دوسروں کی صلاح کرنے اور ان کو راہ ہدایت کی طرف لانے کی ضرورت اور اہمیت کو واضح کیا ہے۔ حضور ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتے تھے۔ واجعلنا ھدۃ مھتدین اے اللہ ! ہم کو ہدایت دینے والے اور ہدایت پانے والے بنا دے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر انسان کے لیے پہلے اپنی اصلاح ضروری ہے۔ اور پھر وہ دوسروں کو بھی ہدایت کی دعوت دے۔ اور ان کی ہدایت کے لیے سامان مہیا کرے۔ آج کے درس میں اللہ نے وہ قانون بتایا ہے جس پر عمل کر کے انسان اپنی اصلاح کے بعد دوسروں کی اصلاح بھی کرسکتا ہے۔ دعوت الی الخیر : ارشاد ہوتا ہے ولتکن منکم امۃ تم میں ایک گروہ یا جماعت ایسی ہونی چاہیئے یدعون الی الخیر جو لوگوں کو خیر کی طرف دعوت دے نیکی اور اچھائی کی طرف بلائے۔ ظاہر ہے کہ تمام کے تمام لوگ تبلیغ کے کام پر نہیں لگ سکتے لہذا فرمایا کہ ایک گروہ یا جماعت کم از کم ایسی ہونی چاہیئے جو تبلیغ دین کا فرض اپنے ذمے لے۔ ولتکن میں لام تاکیدی ہے۔ اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کار خیر کے لیے کسی جماعت کا ہونا کوئی عام قسم کی نصیحت نہیں ہے۔ جس پر عمل کرلیا جائے یا نہ کیا جائے ، ایک ہی بات ہو۔ بلکہ تاکیدا فرمایا کہ ایسی جماعت لازمی ہونی چاہیئے۔ جو لوگوں کو خیر کی دعوت دے۔ اب رہا یہ سوال کہ خیر سے کیا مراد ہے۔ تو مستند احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ وغیرہ کی روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ کہ یدعون الی الخیر کا مطلب ہے الخیر اتباع القرآن والسنۃ یعنی قرآن سنت کا اتباع ہی خیر ہے۔ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ اساسی قانون ہے۔ اور سنت رسول قرآن پاک کی شرح ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے اپنی زبان سے کرائی ہے۔ قرآن پاک وہی جلی ہے اور سنت وحی خفی یا وحی باطنی ہے۔ امام شافعی (رح) ، امام ولی اللہ (رح) ، امام ابن تمییہ (رح) ، اور مولانا رشید احمد گنگوہی (رح) وغیرہم فرماتے ہیں ، ہر صحیح حدیث جو صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے ، وہ قرآن کی شرح ہے ، اس کی تفسیر ہے۔ تعلیم دین اور اس کے تعلم کے لیے سور ۃ توبہ میں بھی آتا ہے۔ " فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم " یعنی ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ہر بستی میں سے ایک جماعت دین کی تعلیم حاصل کرتی اور پھر وہ واپس جا کر اپنی قوم کو ڈراتی یعنی ان کو احکام الہی سے خبردار کر کے ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتی آج کے درس میں بھی اسی قسم کا حکم ہے۔ کہ تم میں سے ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو خیر کی دعوت دے۔ اصلاح کے تین اصول : اس آیت کریمہ میں انسانی اصلاح کے تین اصول بیان کیے گئے ہیں یدعون الی الخیر ہر وقت خیر کی دعوت دیتے رہین ، انفرادی اور اجتماعی زندگی درست رہ سکے۔ اور اس جماعت کی دوسری ڈیوٹی یہ ہو کہ ویامرون بالمعروف وہ نیکی کا حکم کرتی رہے۔ وینھون عن المنکر اور برائی سے روکتی رہے ، اگر ہر قوم میں ایسی جماعت پیدا ہوجائے گی ، تو تمام نظام درست ہوجائے گا اور قوم اصلاح یافتہ ہوجائے گی۔ اور اگر یہ فریضہ ادا نہیں ہوگا ، تو ظاہر ہے قوم منتشر ہو کر بربادی کی طرف جائے گی۔ بنی نوع انسان کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ پہلے ہی حکم دے چکے ہیں۔ کہ تقوی اختیار کرو۔ قرآن پاک کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو۔ آپس میں اتفاق و اتحاد قائم رکھو۔ اور بھائی بھائی بن کر زندگی بسر کرو اور اپنے قول اور عمل سے کتاب اللہ اور سنت زسول پر عمل پیرا ہوجاؤ۔ اور اب یہاں دعوت الی الخیر ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا درس دے کر قوم و ملت کو بیدار رہنے اور اپنی خصوصیات کو باقی رکھنے کا اہتمام فرمایا ہے۔ ایمان کے تین درجات سے متعلق مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت موجود ہے۔ یہ یزید کی خلافت کے بعد کا واقعہ ہے۔ یزید خود تو فاسق فاجر ہی تھا۔ تاہم اس کے بعد اس کا بیٹا مسند خلافت پر متمکن ہوا۔ جو کہ نیک آدمی تھا۔ مگر وہ دو تین ماہ سے زیادہ یہ بار نہ اٹھا سکا اور فوت ہوگیا اس کے بعد 65 ھ میں مروان بن الحکم خلیفہ بنا۔ اس زمانہ میں بھی صحابہ کرام ؓ موجود تھے۔ تابعین میں بھی بڑے بڑے اہل علم لوگ تھے۔ ہوا یہ کہ عید کا دن تھا ، خلیفہ وقت مروان حجرت ابو سعید خدری ؓ کا ہاتھ تھامے نماز عید کے لیے جا رہے تھے ، عید گاہ پہنچے تو مروان اپنا ہاتھ چھڑا کر منبر پر جانا چاہتا تھا۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے ہر چند روکا کہ عید کے دن پہلے نماز اور بعد میں خطبہ ہوتا ہے۔ اس لیے آپ قبل از نماز عید کا خطبہ نہ دیں ، مگر مروان نہ مانا اور منبر پر پہنچ کر خطبہ شروع کردیا۔ اتنے میں حاضرین میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز سے پکارا الصلوۃ قبل الخطبہ یعنی خطبے سے پہلے نماز ہونی چاہیئے۔ مگر مروان پھر بھی نہ مانا اور اپنی ضد پر اڑا رہا۔ ابو سعید خدری ؓ نے کہا اما ھذا فقد قضی ما علیہ یعنی اس شخص نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کردیا ، کیونکہ میں نے خود حضور ﷺ کی زبان مبارک سے سنا ہے ، آپ فرماتے تھے من رائ منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ جو کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے۔ فان لم یستطع فبلسانہ اگر وہ ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے ہی کہ دے۔ اور اگر زبان سے روکنے کی طاقت بھی نہ پاتا ہو فبقلبہ تو کم از کم دل ہی سے اسے برا جانے۔ فرمایا وذلک اضعف الایمان یہ کمزور ترین ایمان ہے۔ مسلم شریف اور ابن ماجہ شریف کی روایت میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں ولیس وراء ذلک من الایمان حبہ خردل یعنی اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان کا کوئی درکہ باقی نہیں ہے۔ کسی برائی کو محض دل سے برا جاننا ایمان کا آخری درجہ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اگر یہ درجہ بھی کسی کو حاصل نہ ہوسکے ، تو پھر اس کا ایمان باقی نہ رہا۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت حذیفہ ؓ کی روایت میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں۔ والذی نفسی بیدہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے لتامرن بالمعروف وتنھون عن المنکر تم ضرور نیکی کا کام کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو۔ اگر ایسا نہیں کروگے لیو شکن اللہ یبعث علیکم عقابا تو منتظر رہو کہ اللہ تم پر عذاب مسلط کردے۔ ثم لتدعنہ فلا یستجیب لکم پھر تم دعائیں کرتے رہو گے۔ مگر اللہ قبول نہیں کرے گا۔ گویا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے غفلت اختیار کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا کے مستحق ٹھروگے۔ فرض کفایہ : مفسر قرآن امام ابونکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ ولتکن منکم امۃ کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبلیغ دین کا کام فرض کفایہ ہے۔ کیونکہ یہ کام ایک گروہ یا جماعت کے سپرد کیا گیا ہے۔ سب کے سب مسلمانوں کو یہ حکم نہیں ہے۔ اگر یہ کام تمام اہل اسلام کے لیے ضروری ہوتا تو نماز ، روزہ وغیرہ کی طرح فرض عین ہوتا ۔ فرض کفایہ کا حکم یہ ہے کہ اگر عامۃ المسلمین میں سے کچھ لوگ بھی اس کو ادا کرلیں تو سب کی طرف سے ادا ہوجائے گی اور اگر کوئی شخص بھی اس فرض کو پورا نہ کرے ، تو سب کے سب گنہگار ہوں گے۔ جیسے جہاد کا فریضہ ہے۔ جب کوئی شخص بھی جہاد کرنے والا نہیں ہوگا تو ساری قوم قابل مواخذہ ہوگی اور اگر جہاد کے قابل بعض لوگ اس فرض کو ادا کرتے رہیں گے تو ساری قوم کی طرف سے فرض کی ادائیگی ہوجائے گی۔ اسی طرح اسلامی تعلیم حاصل کرنے کا معاملہ ہے۔ بنیادی تعلیم کے متعلق تو حضور ﷺ نے فرمایا طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمۃ کہ یہ ہر مسلمان مرد و زن پر فرض ہے۔ یہ ضروریات دین میں شامل ہے۔ اور اس کے ذریعے سے انسان اپنا عقیدہ اور عمل درست کرتا ہے ، مگر مفصل تعلیم فرض بلکفایہ ہے۔ کچھ لوگ بھی اگر دین کی مفصل تعلیم حاصل کرلیں گے اور وہ اسے عام لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے ، تو یہ تمام لوگوں کی طرف سہ کفایت کرے گا۔ اسی طرح مردے کا غسل ، کفن دفن اور اس کی نماز جنازہ ہے۔ اگر بعض لوگوں نے یہ امور انجام دے دیے تو سب لوگوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہوگیا۔ اور اگر کسی نے بھی نہیں کیا تو سارے کے سارے بستی والے گنہگار ہوں گے۔ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے۔ مامن قوم یعمل فیھم بالمیعاصی جس قوم میں برائیوں کا ارتکاب ہو رہا ہو اور قوم کے لوگ قادر ہونے کے باوجود برائی کو روکنے کی کوشش نہ کریں تو اللہ تعالیٰ سب کو سزا دیں گے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے مزید فرمایا۔ کہ برائی سے منع نہ کرنے والی بہیماری سب سے پہلے بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی۔ جب اس قوم کے لوگ معاصی میں مبتلا ہوئے تو ابتدا میں بعض لوگوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی ، جب وہ باز نہ آئے ، تو باقی لوگ بھی ان کے ساتھ ہی شامل ہوگئے۔ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا وغیرہ جاری رکھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سب کو ملعون قرار دے کر سزا میں مبتلا کردیا۔ الغرض امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض بالکفایہ ہے۔ اور اگر امت میں سے کچھ لوگ بھی اس کا بار اٹھا لیں ، تو یہ فریضہ ادا ہوجائے گا۔ اس کے مکلفین : امام غزالی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ برائی کو بزور طاقت روکنا حکومت وقت کا کام ہے کیونکہ اس کے پاس وسائل اور طاقت ہوتی ہے۔ اور زبان سے روکنا علمائے کرام کا کام ہے۔ جب کہیں برائی دیکھیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ خاموش تماشائی نہ بنیں بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں اور احتجاج کریں۔ فرماتے ہیں کہ ایمان کہ آخری درجے میں عوام الناس آتے ہیں۔ انہیں چاہیئے کہ وہ کم از کم دل سے ہی برائی کو برا سمجھیں اور نیکی کی حوصلہ افزائی کریں۔ ابو داؤد شریف کی روایت میں ہے اذا سرتک حسنتک وساء تک سیئتک فانت مومن جب تجھے نیکی اچھی لگے اور برائی بری محسوس ہو ، تو سمجھ لے کہ تیرے اندر ایمان باقی ہے اور اگر اس کے خلاف ہے۔ تو آدمی ایمان سے خالی ہوگیا۔ بعض مفسرین اور علمائے کرام فرماتے ہیں۔ کہ برائی کو طاقت سے روکنے کے کیے حکومت کے علاوہ بعض دوسرے لوگ بھی مکلف ہیں۔ انسان اپنے گھر میں یا اپنے ماحول میں جہاں بھی برائی کو بزور طاقت روک سلتا ہے وہاں وہ ایسا کرنے کا پابند ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ایسے شخص کو اپنے گھر میں یا حلقہ اثر میں اختیار حاصل ہوتا ہے۔ بخاری شریف کی روایت میں موجود ہے کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ تم میں سے ہر شخص اپنے حلقہ اثر میں حاکم ہے اور تم سے اپنی رعیت کے متعلق بازپرس ہوگی۔ لہذا ہر شخص کے لیے لازم ہے کہ جہاں بھی طاقت پاتا ہے ، برائی کو روکنے کی کوشش کرے۔ اگر اس ضمن میں غفلت کا مظاہرہ کرے گا تو مجرم ٹھرے گا۔ مفسرین کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف کے بھی مختلف درجات ہیں جو حکم جس درجے کا ہوگا ، اس پر عمل کرانا بھی اسی درجے میں داخل ہوگا۔ مثلا نماز یا روزہ فرض ہے ، تو وہاں نماز اور روزہ کا حکم کرنا بھی فرض ہوگا۔ اور نوافل وغیرہ جیسے مستحب امور ہیں ان کا حکم کرنا بھی مستحب کے درجے میں ہوگا۔ فرض واجب نہی ہوگا۔ مولانا اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں۔ کہ کسی مسئلہ میں قدرت ہونے میں یہ شرط بھی داخل ہے کہ وہ مسائل دین سے واقف بھی ہو۔ اگر کوئی شخص دینی مسائل کو جانتا ہی نہیں تو عمل کیسے کرائے گا۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ جاہل لوگوں کا وعظ سننا بھی درست نہیں۔ ایسا شخص جھوٹی رویتیں بیان کر کے غکط مسئلے پیش کرے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسا آدمی عالم نہیں جاہل ہے ، لہذا اس کے وعظ سے بھی اجتناب کرنا چاہیئے۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) بھی حاشیئے میں فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کے لیے انسان کا صاحب علم ہونے کے ساتھ ساتھ ذی ہوش اور موقع شناس ہونا بھی ضروری ہے۔ ممکن ہے کہ ایک جاہل آدمی معروف کو منکر اور منکر کو معروف بنا دے۔ یا منکرات کی اصلاح کے لیے ایسے وسائل استعمال کرے جن سے مزید منکرات پیدا ہونے کا احتمال ہو۔ بعض اوقات نرمی کی بجائے سختی اور سختی کی بجائے نرمی اختیار کرنے سے بھی اصلاح کی بجائے بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔ لہذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وسیع تر معنوں میں ایک آدمی کا کام نہیں ہے۔ بلکہ اس کام کے کیے مذکورہ شرائط کا پایا جانا بھی ضروری ہے۔ الغرض ! فرمایا کہ تم میں سے ایک ایسا گروہ ضرور ہونا چاہیئے۔ جو ہر وقت خیر کی طرف دعوت دے ، اچھے کاموں کی تلقین کرے۔ اور برے کاموں سے منع کرے۔ فرمایا واولئک ھم المفلحون یہی لوگ کامیاب اور کامران ہیں۔ ایسا فریضہ ادا کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے ہوں گے اور انہیں درجہ کمال حاصل ہوگا۔ فرمایا یہ لوگ فلاح یافتہ ہوجائیں گے۔
Top