Mafhoom-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 47
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
اور آسمانوں کو ہم نے (اپنے) ہاتھوں سے بنایا اور ہم وسیع کرنے والے ہیں۔
اللہ کی قدرتوں کو دیکھو اور ہوش سے کام لو تشریح : ان آیات میں کائنات کے دوبڑے اہم راز بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ کائنات پھیل رہی ہے اور دوسرے ہر چیز کے جوڑوں کی صورت میں تخلیق۔ پہلے ہم ہاتھ کی وضاحت کرتے ہیں یہ ہماری طرح کے ہاتھ نہیں بلکہ جس طرح انسانی صلاحیت کو سامنے لانے کیلئے انسان کے ہاتھ ایک خاص حصہ رکھتے ہیں یعنی جو بھی بنانا ہو اس کیلئے ہاتھوں کی طاقت اور اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں اللہ کی قدرت اور طاقت کو ظاہر کرنے کیلئے ہاتھوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح موسعون کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ وُسْعٌ سے فاعل بنا ہے اور وُسْعٌ کا مطلب ہے طاقت بس اور زور۔ موسعون کا مطلب ہے وسیع طاقت رکھنے والا، سب کچھ اپنے بس میں رکھنے والا۔ پھر آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بارے میں بتایا۔ زمین کے بارے میں بچھانے کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ کچھ مفسرین نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ ہم کائنات کو پھیلا رہے ہیں۔ راشد مسعود صاحب اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ ماضی قریب کی تحقیق کے مطابق تمام اجرام سماوی ایک دوسرے سے نہایت برق رفتاری سے فاصلہ بڑھا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہ فاصلہ پانچ سو میل فی سیکنڈ کے حساب سے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ بعض اندازے اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ہیں۔ کائنات کی مسلسل توسیع پر سائنس متفق ہے۔ مگر یہ تو سیع کس شرح سے اور کن سمتوں میں ہو رہی ہے ابھی تحقیق طلب اور زیر بحث مسئلہ ہے یہاں ہمارا موضوع متفقہ مسئلہ ہے یعنی توسیع ہے۔ تو مصنف نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے۔ ' اور آسمان کو ہم نے اپنی قدرت خاص سے بنایا ہے اور ہم اس میں توسیع کئے جا رہے ہیں۔ (آیت 47) اس طرح ہمیں علم ہوا کہ کائنات کی مسلسل توسیع کا انکشاف اللہ نے تقریباً تیرہ سو سال قبل کردیا تھا۔ (از ذوق آ گہی) اسی طرح موجودہ سائنسدانوں اور ماہرین فلکیات نے اس انکشاف کی تصدیق یوں کی ہے۔ ڈاکٹر دالدار احمد قادری لکھتے ہیں۔ ' پھیلتی ہوئی کائنات کا تصور سب سے پہلے 1922؁ء میں ایک روسی طبیعات دان نے اور ما ہرِریاضی الیگزنڈر فرائیڈمن نے پیش کیا۔ اس کی تصدیق 1929؁ء میں ایک امریکی سائنسدان ایڈون ہبل نے کی، اس کی مزید تصدیق دو امریکی سائنسدان ” ارنوپنزی اس “ اور ” رابرٹ و لسن “ نے 1965؁ء میں کی۔ (از کائنات قرآن اور سائنس) یہ آیت ہے کہ دیکھو ہم خوب بچھانے والے ہیں۔ (آیت 48) اللہ کے لاشریک ہونے اور خلاق اعظم ہونے کا ثبوت ہے۔ جب ہم سوچتے ہیں کہ ہے کوئی ایسا بنانے والا کہ جو زمین کا ایک ذرہ ہی اپنی ذاتی قدرت سے بنا سکے ؟ تو جواب نفی میں ہی ہوتا ہے۔ جب کوئی ایک ذرہ نہیں بنا سکتا تو یہ اتنی بڑی زمین و آسمان کیسے کوئی بنا سکتا ہے ؟۔ سبحان اللہ ' لا شریک لہ خالق ومالک اور عظیم وخبیر علیم و حکیم صرف اور صرف اللہ کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔ پھر اپنی قدرت کا اظہار اللہ تعالیٰ یوں کرتے ہیں کہ ' ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے۔ (49) یہ چھوٹا سا جملہ یا آیت بہت بڑی حقیقت کو بیان کر رہی ہے جو اللہ کی وحدانیت اور اللہ کی تخلیق کے ایک بہت بڑے اصول کی وضاحت کرتی ہے۔ یہ بحث کچھ طویل ہے مگر ضروری ہے۔ اس کی وضاحت کیلئے ہم سید نصیر حسین صاحب کی کتاب سے مدد لیتے ہیں۔ بڑی خوبصورت وضاحت کی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو۔ ' فیسا غورث کہا کرتا تھا کہ اعداد اور ان کے مبداء یعنی ایک (جو دو سے پہلے ہے) کا علم اللہ جل جلالہ کی وحدانیت کا علم ہے اور اعداد کی خصوصیات ان کی درجہ بندی اور ترتیب کا علم خالق ذوالجلال کی تخلیقات اور اس کی صنعت کی ترتیب اور درجہ بندی کا علم ہے۔ اعداد کی سائنس روح میں مرکوز ہے اور یہ علم کسی غوروفکر کے بغیر وجدانی طور پر واضح ہوجاتا ہے اور کسی ثبوت کے بغیر سمجھ میں آجاتا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب تمام مخلوق کو پیدا کیا اور تمام چیزوں کو وجود بخشا اور ایک ایسے عمل سے ان کو عدم سے وجود میں لایا (پیدا کیا) کہ جو ایک کے عدد سے دیگر اعداد کی پیدائش سے مماثل تھا تاکہ اعداد کی کثرت اس کی اپنی وحدت پر دلیل ہو۔ اور ان کی درجہ بندی اور ترتیب سے ان کا کمال تخلیق ظاہر ہو یہ اس حقیقت کا ثبوت بھی ہوگا کہ وہ (مخلوق) اپنے خالق سے اسی طرح تعلق رکھتی ہے جس طرح اعداد اس ' ایک سے تعلق رکھتے ہیں جو دو سے قبل ہے اور جو اعداد کی اصل ان کا سرچشمہ ہے چونکہ حق سبحانہ تعالیٰ حقیقت میں اور ہر لحاظ سے اور ہر پہلو سے واحد ہے۔ اس لیے یہ ناممکن ہے کہ اس کی مخلوق جو اس کی صفت ہے حقیقت میں واحد ہو اس کے برعکس یہ ضروری ہے کہ وحدت میں کثرت یا دوئی ہو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے واحد عمل سے کہ جو دراصل علت العلل ہے واحد کے معمول (جس پر عمل کیا گیا ہو) کو وجود میں لانے کا آغاز کیا اس طرح اس عمل میں وحدت نہیں بلکہ ایک حد تک دوئی تھی اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ موجودات کو وجود میں لایا اور اس نے جوڑے پیدا کیے اور دوئی (جوڑوں) ہی کو آئندہ کیلئے تخلیق کا قانون اور وجود میں آنے کا اصول بنایا۔ اور یہی وجہ ہے کہ دوئی (جوڑوں) کی وضاحت الفاظ میں کی گئی ہے۔ مثلاً روشنی اور تاریکی، نیک و بد اور نفرت و محبت وغیرہ اور پھر کائنات میں یوں ملتے ہیں مثلاً عیاں و پنہاں اور بلندو پست وغیرہ حیوانات و نباتات میں یوں موجود ہے۔ مثلاً زندگی و موت خواب و بیداری اور مفید و مضر وغیرہ معاشرتی اور مذہبی لحاظ سے یوں ہے مثلاً امرونہی اطاعت و بغاوت اور سزا اور جزا وغیرہ مزید لکھتے ہیں۔ چونکہ تمام چیزوں کے صرف جوڑے بنانا ہی مطابق حکمت نہ تھا، اس لیے بعض چیزوں کو تین تین، چار چار، پانچ پانچ، چھ چھ، سات سات علی ہذا القیاس غیر معین تعدا میں بنایا گیا ہے،۔ (از اسلام میں سائنس اور تہذیب صفحہ 171 تا 172) مطلب یہ ہے کہ کائنات کا اس قدر زبردست انتظام کیا ہے کہ ہر قدم پر اللہ کا کمال دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے بار بار بتایا جا رہا ہے ' تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ (آیت 49)
Top