Mafhoom-ul-Quran - An-Nisaa : 40
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
مومنو ! کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑے رہنے دیا یہ سب اللہ کے حکم سے تھا، تاکہ وہ (اللہ) نافرمانوں کو رسوا کرے۔
مال غنیمت اور مال فَیْ کی تقسیم انصار کی فراخدلی تشریح : سب سے پہلے تو یہودیوں کو اس بات کا جواب دیا جا رہا ہے کہ بیشک پھل دار درخت کاٹنے کی مسلمان کو ممانعت ہے مگر اب جو مسلمانوں نے کھجور کے درخت کاٹ دئیے ہیں تو یہ اللہ کے حکم سے ہی کاٹے ہیں کچھ تو جنگی مصلحت کی بنا پر اور کچھ دشمنوں کو ان کے باغات کی تباہی و بربادی دکھا کر جلانے اور پریشان کرنے کیلئے۔ دوسرا بڑا اہم مسئلہ فی، اور مال غنیمت کی تقسیم کا تھا۔ مال غنیمت اور فَیْ ، دونوں ہی دشمن کے چھوڑے ہوئے منقولہ وغیر منقولہ مال کو کہتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ فَیْوہ مال ہے جو بغیر جنگ و جدل بغیر خون خرابے کے حاصل ہو اور غنیمت وہ ہے جو جنگ و جدل کے بعد ہاتھ لگے۔ سورة الانفال میں بیان ہوچکا ہے کہ جو اثاثہ منقولہ، یعنی نقدی اور ہتھیار وغیرہ جو دشمن سے لڑ کر چھینا جائے اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا اور باقی لشکریوں کا ہے جنہوں نے اس لڑائی میں حصہ لیا۔ مزید تفصیلات گزر چکی ہیں۔ فَیْکے بارے میں یہاں اس طرح وضاحت کی گئی ہے کہ پہلا حصہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ہے۔ اس کی وضاحت حدیث کے ذریعے اس طرح کی گئی ہے۔ سیدنا عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ اس حصہ میں سے اپنا اور اہل و عیال کا نفقہ لے لیتے تھے اور باقی آمدنی جہاد کے لیے اسلحہ اور سواری کے جانور فراہم کرنے پر خرچ کرتے تھے۔ (بخاری ) دوسرا حصہ رشتہ داروں کا ہے۔ یعنی بنی ہاشم و بنی عبد المطلب کے جو ضرورت مند ہوں ان کو مدد دی جائے۔ پھر یتیموں، حاجتمندوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ پھر ان مہاجرین کے لیے ہے جو صرف اللہ اور رسول ﷺ اور دین کی محبت میں اپنے گھر بار مال متاع سب کچھ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر آئے۔ پھر ان انصار کے لیے بھی حصہ ہے۔ جنہوں نے مہاجرین کی پوری پوری خلوص دل سے مدد کی، حالانکہ وہ خود بھی مالی لحاظ سے اتنے مضبوط نہ تھے۔ یہ تقسیم اس لیے کردی گئی تاکہ اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کو مضبوط کردیا جائے وہ اس طرح کہ مال صرف امیروں کے پاس ہی جمع نہ ہوتا رہے بلکہ غریب لوگوں کو بھی مل جائے اور یوں روپیہ بجائے ایک جگہ جمع ہوجانے کے گردش میں رہے اور یوں معاشرے میں توازن پیدا ہوجائے۔ غریب زیادہ غریب اور امیر زیادہ امیر نہ ہوتے جائیں۔ اسی وجہ سے اسلام میں سود حرام کیا گیا ہے زکوٰۃ فرض کی گئی اور فَیْ میں غریبوں کا حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے جزیہ و خراج کا بڑا حصہ غریبوں کے لیے مخصوص ہے۔ پھر یہ حکم دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ جو بھی تقسیم کریں بلاچوں و چرا سب اس کو خوش خوشی قبول کریں۔ یہ احکامات صرف اس وقت کے مسلمانوں کے لیے ہی نہیں تھے بلکہ یہ اصلاح معاشرہ کے لیے ہمیشہ کے قوانین میں شامل ہے۔ جس طرح مہاجرین نے فراخدلی، انسان دوستی، باہمی محبت، ایثار، قربانی اور خلوص کا ثبوت دیا یہ بھی عالم انسانیت کے لیے ایک راہ ہدایت پانے کی بہترین مثال ہے۔ ہم مسلمان بھائی بھائی ہیں ہمیں چاہیے کہ ہر مصیبت، پریشانی، خوشی، غمی بلکہ اپنی دعاؤں میں تمام مسلمان بھائیوں کو بہنوں کو بھی ہمیشہ شامل رکھیں۔ اور اللہ سے سب کے لیے خیر و برکت اور جن و انس کی شرارت سے حفاظت اور شیطانی جذبات سے پناہ کی دعا کرتے رہیں کیونکہ واقعی، اللہ بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے،۔ (آیت 10) یوں تو پورا قرآن ہی رشد و ہدایت کا خزانہ اور انسان کی کامیابیوں کے لیے روشنی کا مینار ہے لیکن گزشتہ آیات کو پڑھ کر خاص طور پر اللہ کی عظمت اس کی مہربانی اور قدرت کی روشن دلیل مل جاتی ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور کتاب ہدایت دی اور ایسا رسول ﷺ دیا کہ جن کی زندگی کا ہر لمحہ ہر بات ہمارے لیے تربیتی طریقے، ہدایات اور تمدنی و سیاسی تعلیمات کا بہترین ذریعہ ہے۔ اسی لیے تو شیطان اور اس کے ساتھی ہر وقت اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کون سا موقع ملے کہ انسان کو بھٹکانے کی کوشش کریں۔ اللہ ہمیں اس کی چالوں سے محفوظ ومامون رکھے۔ (آمین)
Top