Al-Quran-al-Kareem - Al-Hashr : 5
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹا، یا اسے اس کی جڑوں پر کھڑا چھوڑا تو وہ اللہ کی اجازت سے تھا اور تاکہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔
1۔ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ۔۔۔۔:”لینۃ“ کے متعلق تین قول ہیں ، ایک یہ کہ اس سے مراد کھجور کا درخت ہے۔ ابن جریر نے اسے ترجیح دی ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ”لینۃ“ برنی اور عجوہ کے سوا کھجور کا درخت ہے اور تیسرا قول یہ کہ ہر درخت کو ”لینۃ“ کہا جاتا ہے ، کیونکہ جب تک وہ زندہ ہے اس میں ”لیونۃ“ (نرمی) پائی جاتی ہے۔ (شنقیطی) بنو نضیر کی بستیوں کے ساتھ ان کا ایک نہایت خوب صورت باغ تھا جسے ”بویرہ“ کہتے تھے ، اس میں کھجوروں کے بہت سے درخت تھے (یہ آج کل بھی بویرہ کے نام سے معروف ہے جو مسجد قباء کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ شنقیطی) رسول اللہ ﷺ نے ان کا محاصرہ کیا تو بعض ضرورتوں اور حکمتوں کے پیش نظر بعض درختوں کو کاٹنے کا اور بعض کو جلانے کا حکم دیا اور بعض اسی طرح رہنے دیے ، جیسا کہ ابن عمر ؓ نے فرمایا :(حرق رسول اللہ ﷺ نخل بنی النضیر وقطع وھی البویرۃ فنزلت :(ما قطعتم من لینۃ او ترکتموھا قائمۃ علی اصولھا فباذن اللہ) (بخاری ، المغازی ، باب حدیث بنی النضیر۔۔۔۔: 4031)”رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا دیئے اور کٹوا دیئے۔ یہی بویرہ جگہ ہے (جس کا حسان ؓ نے ذکر کیا ہے ، جیسا کہ آگے آئے گا) تو یہ آیت اتری :(مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْھَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِھَا فَبِاِذْنِ اللہ ِ) (الحشر : 6)”جو بھی کھجور کا درخت تم نے کاٹا یا اسے اس کی جڑوں پر کھڑا چھوڑا تو وہ اللہ کی اجازت سے تھا“۔ درختوں کے کاٹنے اور جلانے پر یہود اور منافقین نے شور مچایا کہ محمد (ﷺ) درختوں کو کاٹ کر ”فساد فی الارض“ کا ارتکاب کر رہے ہیں ، جب کہ ان کا دعویٰ اصلاح کا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دلائی کہ تم نے جو بھی درخت کاٹا اسے اس کی جڑوں پر قائم رہنے دیا تو یہ سب کچھ اللہ کے اذن سے تھا ، یعنی اگرچہ جنگ کے موقع پر عام حکم یہی ہے کہ درخت اور کھیت جلانے اور کاٹنے سے اجتناب کیا جائے ، مگر اس موقع پر جو درخت جلائے گئے یا کاٹے گئے یا باقی رہنے دیے گئے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ اذن سے ہوا ، اس لیے مخالفین کی باتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ 2۔ وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ :”الفسقین“ میں بنونضیر کے علاوہ انہیں عہد توڑنے اور لڑائی کے لیے ابھارنے والے یہودی ، مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے منافقین سبھی شامل ہیں۔ یعنی کھجوروں کے درخت کاٹنے ، جلانے یا باقی رکھنے کا عمل دوسری بہت سی مصلحتوں کے علاوہ اس لیے بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ فاسقوں کو ذلیل کرے۔ کاٹنے اور جلانے میں ان کی تذلیل تو ظاہ رہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی زندگی بھر کی کمائی کو جلایا اور کاٹا گیا مگر وہ کاٹنے اور جلانے والوں کا ہاتھ نہ روک سکے۔ اس میں بنو نضیر، دوسرے یہودیوں ، منافقین مدینہ اور مشرکین مکہ سب کی ذلیل تھی کہ انہوں نے یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا اور اف تک نہ کرسکے ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے شاعر حسان بن ثابت ؓ نے مشرکین مکہ پر طنزو تشنیع کے تیر ب راستے ہوئے کہا : وھان علی سراۃ بنی لوی حریق بالبویرۃ مستطیر ”بنولوی (قریش) کے سرداروں نے وہ آگ آسانی سے برداشت کرلی جو بویرہ کے مقام پر پھیل رہی تھی (یعنی انہیں اس پر کوئی غصہ آیا نہ غیرت اور نہ ہی وہ حسب وعدہ بنو نضیر کی مدد کو پہنچے)“۔ (بخاری ، المغازی ، باب حدیث بنی التضیر۔۔۔: 4022) اور جو درخت باقی رہے ان میں ان سب کی تذلیل یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کے قبضے میں آئے اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ ان کے قبضے سے چھڑا سکیں۔ 3۔”وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ“ (اور تا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے) میں حرف عطف واؤ سے ظاہر ہے کہ اس سے پہلے کچھ عبادت محذوف ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ اذن اس لیے دیا تا کہ بنو نضیر کے محاصرے کے لیے راستہ صاف ہوجائے ، ان کے لیے کوئی چھپاؤ باقی نہ رہے ، محاصرے میں سختی پیدا کی جائے ، انہیں قلعوں سے نکل کر میدان میں آکر لڑنے پر ابھارا جائے اور تا کہ مسلمانوں کو عزت عطاء فرمائے اور تا کہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔ 4۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر جنگی ضرورت کا تقاضا ہو تو درختوں اور کھیتوں کو کاٹا، جلایا اور عمارتوں کو گرایا جاسکتا ہے ، بلا ضرورت یہ کام جائز نہیں۔ 5۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو قرآن کے علاوہ اور احکام بھی دیئے گئے ، کیونکہ یہاں جس کے متعلق فرمایا کہ ”وہ اللہ کے اذن سے تھا“ وہ ”اذن“ قرآن میں نہیں بلکہ وحی خفی کے ذریعے سے دیا گیا ہے، جسے حدیث کہتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ وحی الٰہی صرف قرآن تک محدود نہیں۔
Top