Mafhoom-ul-Quran - An-Naba : 6
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًاۙ
اَ لَمْ : کیا نہیں نَجْعَلِ : ہم نے بنایا الْاَرْضَ : زمین کو مِهٰدًا : فرش
کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا ؟
اللّٰہ کی نعمتوں کا تذکرہ تشریح : رب رحمن و رحیم قیامت کے دن اور مرنے کے بعد زندہ کرنے کی بار بار وضاحت فرماتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بندوں سے بےحد پیار کرتے ہیں۔ کیوں نہ ہو ہمیں اسی نے خود پیدا کیا ہے ہماری بہتری بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اسی لیے تو خبردار کر رہا ہے کہ ہم وقت پر اس دن کی تیاری کرلیں بجائے سزا پانے کے اللہ کی طرف سے شاباش اور بہترین انعامات حاصل کریں۔ اسی سلسلے میں ہمیں اس دنیا کی ان تمام نعمتوں کی یاد دہانی کرواتا ہے جو اس نے ہمیں دے رکھی ہیں جو اس کی قدرت کا بہترین ثبوت ہیں مثلاً زمین کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ذکر پہلے بھی کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔ زمین انسانی زندگی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اسی کے متعدد اجزا سے ہماری پیدائش کا نطفہ تیار ہوتا ہے۔ اسی کے اوپر ہم بسیرا کرتے ہیں۔ اسی سے پیدا شدہ اناج اور پانی سے ہماری پرورش ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا سیارہ ہے جو پانی کی دولت سے مالا مال ہے جس کی وجہ سے یہ نظام شمسی میں خاص حیثیت رکھتا ہے ورنہ دوسرے کئی سیاروں کی طرح زمین بھی مردہ سیارہ ہوتی۔ پانی کی موجودگی زمین کے سنگھار کا باعث ہے اور انسان کے لیے زندگی کا بہترین تحفہ ہے۔ پھر اس زمین کی پختگی اور مزید بہتری کے لیے اس پر بڑے بڑے پہاڑ میخوں کی طرح گاڑ دئیے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ '' زمین کے لہریوں کو پہاڑوں کی بنیادیں کہنا مناسب ہے کیونکہ وہ اندازاً ایک میل سے تقریباً 10 میل کی گہرائی تک گئی ہوئی ہیں۔ قشر ارض کی مضبوطی ان لہریوں کی وجہ سے ہی ہے ''۔ پھر انسان کی پیدائش کا بندو بست یوں کیا کہ عورت و مرد کا جوڑا بنایا۔ کیونکہ عورت کے بیضہ اور مرد کے خلیہ کے ملاپ سے انسان کی تخلیق کا بندوبست اللہ نے کیا ہے۔ یہ عجیب و غریب اور حیران کن طریقہء تخلیق موجودہ ترقی یافتہ دور میں کافی حد تک معلوم کیا جا چکا ہے۔ یہ بھی قرآن کی آسمانی کتاب ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ یہ پورا طریقہ کار اس وقت بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ جب دنیا کے پاس نہ تو ایسے خوردبینی آلات تھے اور نہ ہی تحقیقاتی علوم و فنون تھے کہ جن کی مدد سے وہ ان باریک ترین بیضہ اور خلیہ کو دیکھ سکتے۔ جان لینا تو بعد کی بات ہے۔ جیسا کہ ماہرین نے بتایا ہے کہ افزائش نسل کا یہ خلیہ لمبوترا ہوتا ہے اور اس کے ابعاد کو ایک ملی میٹر کے دس ہزارویں حصے میں ناپا گیا ہے۔ جو انسانی آنکھ بغیر خورد بین کے دیکھ نہیں سکتی۔ اس لاجواب طریقہ تخلیق کو غور سے سوچیں تو اللہ ہمارے سامنے موجود دکھائی دیتا ہے کیونکہ یہ مسئلہ کسی غیر اللہ کے بس کی بات نہیں۔ جوڑوں کا تصور اسی لیے دیا گیا ہے کہ رب الاعلی نے اپنی تمام تخلیقات کی بنیاد جوڑوں سے ہی کی ہے۔ کیا حیوان، انسان ' جمادات یا نباتات ہوں۔ سب جوڑوں میں ہی موجود ہیں۔ اور یہ اللہ کی وحدانیت کا بھی ایک ثبوت ہے کہ وہ مالک خالق بالکل ایک ہے نہ اس کی پیدائش کسی سے ہوئی اور نہ کوئی اس سے پیدا ہوا۔ بس وہ تھا، ہے اور رہے گا۔ اس کی محبت انسان کے لیے اللہ کے ان انتظامات سے بھی ظاہر ہوتی ہے جو اس نے بندوں کی سہولیات کے لیے اس دنیا میں کر رکھے ہیں۔ مثلاً آرام کے لیے پر سکون رات بنا دی کہ نیند کے ذریعہ اعصابی اور روحانی سکون حاصل کر کے اگلے دن کے کام کاج اور محنت مزدوری کے لیے تازہ دم ہو سکیں۔ اس طرح مضبوط اور فائدوں سے بھرپور سات آسمانوں کی بہترین چھتیں ہمارے لیے بنا دیں۔ یہ چھتیں اپنی بناوٹ میں عجیب و غریب ہیں۔ نہ تو ان کو ستونوں کا سہارا دیا گیا ہے اور نہ ہی کسی اور چیز سے ان کو تھاما گیا ہے بلکہ ایک غیر محسوس طاقت نے ان کو یوں تھام رکھا ہے کہ نہ تو وہ ایک دوسرے پر گرتے ہیں اور نہ ہی زمین کے اوپر آگرتے ہیں۔ کیا یہ اس خدائے لم یزل کی موجودگی کا اعلان نہیں کرتے ؟ ہے کوئی ایسا ماہر فلکیات سائنس دان جو ان کو بنانا تو بڑی دور کی بات ہے صرف ان کی بناوٹ ' کارکردگی اور توازن کو ہی پوری طرح جان سکے ؟ کوئی نہیں متعلقہ علوم کے ماہرین دن رات تحقیقات میں لگے رہتے ہیں مگر حتمی فیصلہ ان کے بس کی بات نہیں۔ آخر میں وہ بھی اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں جو حقائق قرآن میں بتا دئیے گئے ہیں اور وہ حقائق ہی سچ ہیں کبھی تبدیل نہ ہونے والے۔ کیا یہ اللہ کی موجودگی قرآن و رسول ﷺ کی سچائی اور اللہ کی دی گئی خبروں کی سچائی کے لیے کافی اور مستحکم ثبوت نہیں ہیں ؟ کیوں نہیں بیشک اللہ کا یہ فرمان باقی تمام فرمانوں کی طرح بالکل سچ ہے کہ حساب کا دن ضرور آئے گا لوگوں کو دوبارہ زندہ کر کے اللہ کے حضور ضرور جمع ہونا ہوگا۔ اسی طرح اس سورج کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو اپنے اندرونی دھماکوں سے شدید گرمی اور روشنی پیدا کرتا رہتا ہے۔ ماہرین نے اس کی خصوصیت کچھ یوں بیان کی ہے۔ ہائیڈروجن کے جو ہر ٹوٹ پھوٹ کر ہیلم کے جوہروں میں تبدیل ہورہے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس قسم کے ستاروں کے ابتدائی مرحلہ کے لیے مجموعی طور پر دس ارب سال قرار دی جاتی ہے۔ اس کے موجودہ مرحلہ کو اختتام تک پہنچنے کے لیے مزید 5 ارب سال لگنے چاہییں۔ (از ڈاکٹر موریس بوکائے) یہ تو سائنس کا اندازہ ہے جو غلط بھی ہوسکتا ہے اصلیت تو خالق ومالک اللہ ہی جانتا ہے۔ ہمیں ایک عام عقل رکھنے والے انسانوں کو یہ تو پکی طرح معلوم ہے کہ سورج کے بیشمار فائدے ہیں ہماری زمین کے اور ہمارے بہت سے کام اسی کے ذریعہ چلتے ہیں۔ مثلاً دن کے وقت دنیا کو روشن کردینا ایسے کہ ہم لاکھوں روشنیوں سے بھی ایسی روشنی پیدا نہ کرسکیں اور پھر موسم کو مناسب رکھنا۔ پھلوں ' سبزیوں اور فصلوں کو اپنی مناسب گرمی سے پکا دینا۔ پانی کو اپنی تپش سے بھاپ بنا کر بلندیوں تک لے جانا تاکہ وہ بھر پوربادلوں کی شکل اختیار کرلیں اور پھر ان بادلوں کو ہوا کے ذریعے دور دراز علاقوں میں انتہائی موزوں ترین پروگرام کے تحت یوں زمین پر برسا دینا کہ کھیتی باڑی اور پینے کے لیے مستقل ضرورت کے مطابق خلقت کو ٹھنڈا میٹھا تازہ پانی ملتا رہے۔ سبحان اللہ۔ ہے کوئی ایسا ماہر انجنئیر سائنس دان جو اس پورے پر وجیکٹ کا ایک معمولی حصہ بھی بنا سکے ؟ کوئی نہیں۔ نہ ہوا ' نہ ہے اور نہ ہوگا۔ یہ سب کمالات صرف اس رحمن و رحیم ' خالق ومالک ' غفور ورحیم اور جبار و قھار کے ہی ہیں جس نے مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کی پکی اور سچی خبر ہمیں انسانوں کو دی ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہر وقت موجود ہے۔ پھر کونسی چیز ہمیں اللہ کے احکام کو ماننے سے روک رہی ہے ؟ غوروفکر کا مقام ہے ہماری عقلیں اتنی بھی کمزور اور بےکار نہیں کہ ہم ان تمام کھلی باتوں سے اللہ کو پہچان نہ سکیں۔ غور سے سنئے۔
Top