Mafhoom-ul-Quran - At-Tawba : 100
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ١ۙ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
وَالسّٰبِقُوْنَ : اور سبقت کرنے والے الْاَوَّلُوْنَ : سب سے پہلے مِنَ : سے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجرین وَالْاَنْصَارِ : اور انصار وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں اتَّبَعُوْھُمْ : ان کی پیروی کی بِاِحْسَانٍ : نیکی کے ساتھ رَّضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنْھُمْ : ان سے وَرَضُوْا : وہ راضی ہوئے عَنْهُ : اس سے وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَھُمْ : ان کے لیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں تَحْتَهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَآ : ان میں اَبَدًا : ہمیشہ ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : کامیابی بڑی
مہاجرین اور انصار میں سے جن لوگوں نے ایمان لانے میں سبقت کی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں۔ اور اللہ نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔
مہاجرین اور انصار صحابہ کے لیے خوشخبری اور منافقوں کے لیے عذاب تشریح : پچھلی آیات میں دیہاتی مومنین کا ذکر تھا اب یہاں تمام مخلص مومنین کا ذکر ہے اور پھر ان کے اعمال کے مطابق ان کے درجات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو نبی اکرم ﷺ کی آواز پر فوراً مسلمان ہوگئے (جن میں مہاجرین وانصار شامل ہیں) اور کچھ نیک نیتی سے آہستہ آہستہ ان کے بعد مسلمان ہوتے گئے اور ان سب نے پورے خلوص کے ساتھ اسلام کے قوانین کی پابندی کی۔ پہلے گروہ کو صحابہ اور دوسرے کو تابعین کہیں گے اور بعض نے قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کو ان میں شامل کیا ہے۔ دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ غزوئہ تبوک کے لیے کچھ انصار و مہاجرین فوراً جہاد کے لیے تیار ہوگئے جبکہ کچھ مسلمان صرف سستی کی وجہ سے کچھ دیر کے بعد جہاد کے لیے تیار ہوئے اور کچھ مسلمان صرف کاہلی کی وجہ سے جہاد سے پیچھے رہ گئے مگر پھر ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انہوں نے پوری عاجزی اور انکساری سے معافی مانگ لی اور آئندہ ہر قسم کی کوتاہی اور نافرمانی سے سچی توبہ کرلی۔ اور پھر ایک طبقہ منافقین کا بھی تھا جو کہ بظاہر توبہ کر رہا تھا مگر وہ توبہ میں مخلص نہ تھے اور نہ ہی ان کے دل صاف تھے ان تمام باتوں کی وضاحت کے لیے اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ نبی کریم ﷺ کو خبر دی اور یہ رہبری یا اصول تمام امت مسلمہ کے لیے تاقیامت جاری رکھنے کی ہدایت ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ تمام مسلمان جو قرآن و حدیث کے پابند ہیں اللہ کا خوف رکھتے ہیں پکے مسلمان ہیں ان کے لیے جنت کی خوشخبری ہے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ دوسرے درجہ پر وہ منافقین آتے ہیں جو اپنے نفاق کو اس خوبصورتی سے چھپاتے ہیں کہ بشر ہونے کے ناطے نبی اکرم ﷺ بھی دھوکہ کھاجاتے تھے تو ان کی نشاندہی اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ کرتا رہا اور پھر فرمایا کہ ایسے لوگ دہرے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ ایک تو نفاق کو چھپانے کی فکر اور دوسرے نفاق کے ظاہر ہوجانے کا خوف اس طرح ان کا سکون غارت ہوجاتا اور بےسکونی زندگی کو عذاب میں ڈال دیتی ہے۔ آخر میں فرمایا کہ مرنے کے بعد ان کے نفاق اور نافرمانی کی و جہ سے ان کو دردناک اور بہت بڑا عذاب دیا جائے گا جو کہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والا ہوگا۔ تیسرے درجہ پر ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو نیک اور بد، ملے جلے اعمال کرنے والے مسلمان ہیں۔ نیک اعمال تو یہ ہیں کہ ایمان لے آئے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسے فرائض کی پابندی کرتے رہے، پہلے غزوات میں بھی شامل رہے، مگر انسان ہونے کے ناطے ان سے کچھ کوتاہی ہوگئی جیسا کہ غزوئہ تبوک میں سستی کاہلی کی وجہ سے شامل نہ ہو سکے۔ لیکن بعد میں بڑے شرمندہ ہوئے اور استغفار کی۔ رسول اللہ ﷺ سے سچے دل معافی مانگی۔ تو ان کے لیے اللہ غفور ورحیم فرماتا ہے کہ اللہ معاف کرنے والا ہے ان کی سچی توبہ قبول کرلی جائے اور ایسے لوگوں کے لیے بھی جنت کی خوشخبری ہے۔ یہ آیت اگرچہ خاص لوگوں کے لیے خاص موقع پر نازل ہوئی ہے مگر یہ بھولنے والے، غلطی سے غلط کام کرنے والے اور سچی معافی مانگنے والے تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ خبردار کرتے ہیں کہ یہاں کوئی دھوکہ اور چالاکی کام نہیں دے سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید اور ہر شخص کی نیت کو خوب اچھی طرح جانتا ہے۔ معافی ان کو ملتی ہے جو معافی کی تمام شرائط پوری کرکے معافی مانگتے ہیں تو اللہ اپنی رحمت سے ان کی معافی ضرور قبول کرتا ہے۔ حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :” بیشک اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک اسے غرغرہ (عالم نزع کا طاری ہونا) شروع نہ ہو۔ “ (جامع ترمذی ابواب الدعوات ) ندامت سے رونا اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ پسند ہے جو شخص اس قدر نادم ہو کہ رو روکر معافی مانگے وہ سچا ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ملے جلے اعمال کے مالک، یعنی غزوئہ تبوک میں شامل نہ ہونے والے مخلص مسلمان اگر اب توبہ کرتے ہیں اور توبہ کی قبولیت کے لیے نیک کام کرتے ہیں، یعنی صدقہ و خیرات اور مال دیتے ہیں تو آپ ان کے صدقات و مال قبول کرلیں اور ان کے لیے دعا کریں اس طرح ان کے دلوں کو سکون ملے گا اور وہ مزید نیکی کی راہ اختیار کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سنتا ہے اور ہر عمل کو جانتا ہے۔ صدقہ و خیرات کی بڑی فضیلت ہے۔ صدقہ مال کو پاک صاف کرتا ہے اور رحمتوں اور برکتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ انسان کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور مشکلات آسان ہوتی ہیں اور انسان کے دل کو سکون ملتا ہے۔ معاشرے سے بہت سی برائیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ انسانی ہمدردی، فراخدلی اور نیکی کے جذبات بڑھتے ہیں۔ لالچ اور خود غرضی ختم ہوتی ہے۔ سب سے بڑی بات کہ اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے جو ہماری آخرت کی زندگی کو بہترین بنانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ آیت امت محمدیہ کے لیے ہے کیونکہ یہ صرف اس وقت کے مسلمانوں کے لیے خاص نہیں بلکہ قیامت تک تمام مسلمان اس سے فائدہ حاصل کریں اور جو بھی حاکم وقت ہو اس کا فرض ہے کہ صدقات و زکوٰۃ وصول کرنے اور ان کو بہترین جگہ پر خرچ کرنے کا پکا بندوبست کرے۔ اس میں کوئی کوتاہی قابل معافی نہ ہوگی۔ زکوٰۃ، اسلامی نظام مالیات کا بہترین قانون ہے کہ جس کی وجہ سے بیروزگاری ختم ہوئی، اپنے پائوں پر کھڑے ہو کر خودکفیل مضبوط اور ناقابل تسخیر مملکت وجود میں آئی اور اسلامی پرچم دنیا کے بڑے حصے پر لہراتا نظر آیا۔ اصل میں صدقہ و زکوٰۃ اسلام کا رکن ہے اور اسلامی مملکت کے محکمہ مالیات کا ایک بہت بڑا ستون ہے۔ لہٰذا خطاکار کو معاف کرنے اور اسی کی طرف سے صدقہ و زکوٰۃ قبول کرنے سے انسان میں بہتری پیدا ہوتی ہے اور وہ برائیوں سے ہٹ کر نیکیوں کی طرف راغب ہوتا ہے اور اللہ تو بہت مہربان، بخشنے والا، دیکھنے اور جاننے والا ہے۔ اس کو تو کوئی بھی دھوکہ نہیں دے سکتا، اس لیے جو معافی مانگے اور سچے دل سے معافی مانگے تو اس کے لیے اچھا ہے۔ اگلی آیات اسی سلسلے میں ہیں۔
Top