Mafhoom-ul-Quran - At-Tawba : 29
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠   ۧ
قَاتِلُوا : تم لڑو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَا : اور نہ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یومِ آخرت پر وَلَا يُحَرِّمُوْنَ : اور نہ حرام جانتے ہیں مَا حَرَّمَ : جو حرام ٹھہرایا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَلَا يَدِيْنُوْنَ : اور نہ قبول کرتے ہیں دِيْنَ الْحَقِّ : دینِ حق مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے (اہل کتاب) حَتّٰي : یہانتک يُعْطُوا : وہ دیں الْجِزْيَةَ : جزیہ عَنْ : سے يَّدٍ : ہاتھ وَّهُمْ : اور وہ صٰغِرُوْنَ : ذلیل ہو کر
جو اہل کتاب اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں۔ ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔
یہود و نصارٰی سے قتال یا جزیہ ؟ تشریح : پچھلی آیات میں کفار ومشرکین کو چار ماہ کی مہلت کے بعد قتل کرنے، قید کرنے اور خاص صورتوں میں مختصر قیام کی اجازت دی گئی تھی اس آیت میں خاص طور سے اہل کتاب کا نام لیا گیا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے مسلمان ان کو اہل کتاب ہونے کی رعایت دے دیں ان کو رعایت اس لیے نہیں دی گئی کیونکہ وہ اپنی اصلی تعلیمات سے بڑی حدتک پھر چکے تھے اسی لیے وضاحت کردی گئی کہ جو ان چار اسباب کے دائرہ میں آئے اسے قتل کرو۔ وہ چار اسباب یوں بیان کی گئی ہیں۔ 1 جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے۔ 2 جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ 3 جو حرام چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے۔ 4 جو سچے دین کو قبول نہیں کرتے۔ ان تمام باتوں کا حکم اہل کتاب، یعنی یہودو نصارٰی کو دیا گیا تھا مگر جیسا کہ اگلی آیات میں وضاحت کی گئی ہے کہ وہ لوگ اپنے اصل دین سے کافی حدتک ہٹ چکے تھے، اس لیے ان کو قتل بھی کیا جائے ان سے باقاعدہ جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر آپ کی اطاعت قبول کرلیں اور پھر اسلامی قانون کے مطابق جزیہ دینا قبول کرلیں۔ کیونکہ اسلامی ریاست بن چکی تھی اور اس کے قوانین بھی بن چکے تھے اس لیے جزیہ بھی مقرر ہوچکا تھا۔ جزیہ اس رقم کو کہتے ہیں جو ذمیوں سے لی جاتی ہے۔ اگر وہ مسلمان ہوجائیں تو پھر وہ مسلم شہری ہونے کی حیثیت سے زکوٰۃ دیتے ہیں، جزیہ معاف ہوجاتا ہے۔ یہ ایک طرح سے جان و مال کی حفاظت کا ٹیکس لیا جاتا ہے، جبکہ زکوٰۃ اسلام کا رکن ہے۔ جزیہ کی مقدار یوں بیان کی گئی ہے۔ دولت مندوں سے 48 درہم سالانہ، متوسط طبقہ سے 24 درہم سالانہ اور ادنیٰ طبقہ سے 12 درہم سالانہ۔ پھر اس میں عورتوں، بچوں اور محتاجوں کو جزیہ نہ دینے کی رعایت دی جاتی تھی۔ اور پھر جزیہ ادا نہ کرنے پر بڑی سخت سزا سے منع کیا گیا تھا بلکہ ہلکی سزا دینے کا حکم تھا۔ آنحضرت ﷺ ، سیدنا ابوبکر ؓ اور سیدنا عمر ؓ کے آخری الفاظ یوں تھے : ” ذمیوں سے بھلائی کرنا، ان سے رواداری برتنا، انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دینا۔ “ ) از کتاب الخراج۔ الجامع الاحکام القرآن قرطبی، الاحکام السطانیہ صفحہ (137 ان تمام معاملات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام زبردستی نہیں پھیلایا گیا بلکہ اسلامی مملکت میں غیرمسلم لوگوں کو رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس شرط پر کہ وہ جزیہ دینا قبول کرلیں۔ یہ اصول صرف اہل کتاب کے لیے ہے مشرکین عرب کے لیے نہیں۔ اگلی آیات یہود و نصارٰی کے بارے میں ہیں۔
Top