Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 29
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠   ۧ
قَاتِلُوا : تم لڑو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَا : اور نہ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یومِ آخرت پر وَلَا يُحَرِّمُوْنَ : اور نہ حرام جانتے ہیں مَا حَرَّمَ : جو حرام ٹھہرایا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَلَا يَدِيْنُوْنَ : اور نہ قبول کرتے ہیں دِيْنَ الْحَقِّ : دینِ حق مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے (اہل کتاب) حَتّٰي : یہانتک يُعْطُوا : وہ دیں الْجِزْيَةَ : جزیہ عَنْ : سے يَّدٍ : ہاتھ وَّهُمْ : اور وہ صٰغِرُوْنَ : ذلیل ہو کر
جو اہل کتاب میں سے خدا پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں
قاتلوا الذین لا یؤمنون باللہ ولا بالیوم الاخر ولایحرمون ما حرم اللہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق من الدین اوتو الکتب حتی یعطوا الجزیق عن یدوھم صاغرون۔ جو اہل کتاب نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخرت پر اور نہ اس چیز کو حرام قرار دیتے ہیں جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کردیا ہے اور نہ دین حق اختیار کرتے ہیں ‘ ان سے اس وقت تک لڑو کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ پیش کریں۔ مجاہد نے کہا : جب رسول اللہ ﷺ کو رومیوں سے جہاد کرنے کا حکم دے دیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ غزوۂ تبوک پر تشریف لے گئے۔ ایک شبہ : اہل کتاب تو اللہ کو بھی مانتے ہیں اور روز آخرت کو بھی ‘ ان کو غیرمؤمن کیوں فرمایا۔ ازالۂ شبہ : اہل کتاب کا اللہ پر ایمان ایسا نہیں ہوتا جیسا ہونا چاہئے۔ مسیح اور عزیر کو خدا کا بیٹا کہنے کے بعد اللہ کی توحید و بےنیازی اور والدیت سے پاکی کہاں رہی ؟ جب کسی دوسرے کو اللہ جیسا (نسلاً یا صفاً ) مان لیا تو اللہ کی یگانگت و بےہتمائی کہاں باقی رہی ؟ پھر یہودیوں کا اپنے لئے اور عیسائیوں کا اپنے لئے جنت کو مخصوص کرلینا اور یہودیوں کا یہ کہنا کہ صرف چند روز کیلئے ہم کو دوزخ چھو جائے گی اور اہل کتاب کا یہ اختلاف کہ جنت کی نعمتیں ایسی ہی ہوں گی جیسے دنیا کی ‘ یا اس سے الگ ہوں گی اور پھر یہ نزاع کہ جنت دوامی ہے یا فناپذیر اور وہاں کھانا پینا ہوگا یا نہ ہوگا ‘ یہ تمام خیالات و اختلاف عقیدۂ آخرت کو متزلزل اور غیر صحیح بنا دیتے ہیں اور آخرت پر ایمان کو عدم ایمان میں تبدیل کردیتے ہیں۔ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اور جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا ہے ‘ اس کو وہ حرام نہیں قرار دیتے۔ یعنی قرآن و حدیث سے جس چیز کی حرمت ثابت ہے ‘ اس کو وہ حرام نہیں مانتے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ رسولہ سے (مراد محمد رسول اللہ ﷺ نہیں بلکہ) وہ رسول مراد ہے جس کے اتباع کا اہل کتاب کو دعویٰ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اصل دین کا بھی اعتقادی اور عملی اتباع نہیں کرتے کیونکہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ نے تو حضور گرامی محمد رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرنے کا حکم دیا تھا (اور اہل کتاب اس حکم کو نہیں مانتے اور محمد ﷺ کا اتباع ضروری نہیں سمجھتے) ۔ وَلاَ یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ اور سچے دین کو نہیں اختیار کرتے۔ دین موصوف مضاف اور الحق صفت مضاف الیہ ہے۔ قتادہ کے نزدیک الحق سے مراد اللہ ہے ‘ یعنی اللہ کے دین اسلام کو اختیار نہیں کرتے۔ بعض کے نزدیک الحق سے مراد اسلام ہے۔ ابو عبیدہ نے (الحق سے پہلے مضاف محذوف قرار دیا ہے اور دین کا معنی اطاعت کہا ہے اور) مطلب اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ اہل حق کی طاعت کی طرح اللہ کی اطاعت نہیں کرتے۔ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ یعنی وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی ہے۔ اس سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صَاغِرُوْنَ یہاں تک لڑو کہ وہ رعیت بن کر جزیہ دینا منظور کرلیں۔ جزیہ کا لغوی معنی ہے بدلہ۔ آخر میں تاء ہیئت جزا کو ظاہر کر رہی ہے ‘ یعنی وہ ہیئت ذلت جو مقررہ رقم ادا کرنے کے وقت ادا کرنے والے کی ہوتی ہے۔ اس سے مراد وہ شخصی ٹیکس ہے جو فی کس مقرر کیا گیا ہو۔ بعض کے نزدیک لفظ جزیہ جَزٰی دَیْنَہٗ (اس نے اپنا قرض چکا دیا) سے مشتق ہے۔ یَدْ سے مراد ہے دست اطاعت ‘ یعنی اطاعت کے ساتھ ادا کریں۔ یا یہ مراد ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے ادا کریں ‘ کسی دوسرے کے ہاتھ نہ بھجوائیں۔ حضرت ابن عباس کا یہی قول ہے ‘ اسی لئے اداء جزیہ کیلئے کسی کو اپنا نمائندہ بنانا جائز نہیں۔ یا عَنْ یَدٍ سے مراد ہے مجبور ہو کر ذلت کے ساتھ ادا کرنا۔ ابو عبیدہ نے کہا : جو شخص ناگوارئ خاطر کے ساتھ کوئی چیز دے تو عرب کہتے ہیں : فَلانٌ اعطٰی عَن یدٍ ۔ بعض نے کہا : عَنْ یَدٍ سے مراد ہے نقد ادا کرنا ‘ قرض نہ رکھنا۔ بعض نے کہا : عَنْ یَدٍ سے یہ مراد ہے کہ شکر گذار ہو کر جزیہ ادا کریں کہ مسلمانوں نے ان کو قتل نہیں کیا ‘ کچھ مال لے کر چھوڑ دیا۔ صاغرون یعنی ذلیل اور مغلوب ہونے کی حالت میں جزیہ ادا کریں۔ عکرمہ نے کہا : مراد یہ ہے کہ لینے والا بیٹھا ہو اور دینا والا کھڑا ہو کر پیش کرے۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس کا قول آیا ہے کہ اس کی گردن روند کر اس سے جزیہ وصول کیا جائے۔ کلبی نے کہا : لیتے دیتے وقت اس کی گردن پر گھونسا رسید کیا جائے۔ بعض نے کہا : اس کی داڑھی پکڑ کر طمانچہ مارا جائے۔ بعض نے کہا : اس کا گریبان پکڑ کر کھینچتے ہوئے سختی کے ساتھ مقام تحصیل تک لایا جائے۔ بعض نے کہا : جزیہ پیش کرنا ہی ذلت ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : ذمیوں پر اسلام کے احکام لاگو کرنا ہی ان کی تذلیل ہے۔ ظاہر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جزیہ لے کر جنگ بند کردینا صرف اہل کتاب کے ساتھ مخصوص ہے ‘ اسی لئے شروع میں حضرت عمر مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیتے تھے ‘ لیکن جب حضرت عبدالرحمن بن عوف نے شہادت دی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجوسیوں سے جزیہ قبول فرمایا تھا تو حضرت عمر نے اپنا سابق عمل ترک کردیا۔ رواہ البخاری من حدیث بجالۃ بن عبدۃ۔ امام شافعی کے بجالہ کے (قابل اعتماد یا ناقابل اعتماد ہونے کے) متعلق دو قول ہیں : حدود میں تو امام شافعی نے اس شخص کو مجہول کہا ہے اور جزیہ کے باب میں کہا کہ اس سلسلے کی حدیث صحیح ہے ‘ اسی لئے مجوسیوں سے جزیہ لینے پر اجماع علماء ہے۔ اختلافی مسائل امام ابوحنیفہ کے نزدیک اہل کتاب سے جزیہ لیا جائے گا خواہ وہ عرب ہوں یا عجمی اور عجم کے مشرکوں سے بھی لیا جائے گا خواہ وہ مجوسی ہوں یا بت پرست ‘ البتہ مرتدوں سے نہیں لیا جائے گا۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ عرب سے بالکل جزیہ نہیں لیا جائے گا ‘ اہل کتاب ہوں یا مشرک۔ جزیہ صرف عجمیوں سے لیا جائے گا ‘ اہل کتاب سے بھی اور مشرکوں سے بھی۔ امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک ہر کافر سے جزیہ لیا جائے گا خواہ وہ عرب ہو یا عجمی ‘ کتابی ہو یا کوئی اور۔ ہاں مرتدوں سے اور قریش کے مشرکوں سے نہیں لیا جائے گا۔ امام شافعی نے کہا : جزیہ مذہب کی بنیاد پر ہے ‘ شخصیت کی بنیاد پر نہیں ہے۔ لہٰذا صرف اہل کتاب سے لیا جائے گا خواہ وہ عربی ہوں یا عجمی ‘ بت پرستوں سے بالکل نہیں لیا جائے گا۔ امام شافعی کے نزدیک مجوسی اہل کتاب ہیں۔ امام مالک نے موطأ میں اور امام شافعی نے اَلْاُ مّ میں بیان کیا ہے کہ جعفر بن محمد نے کہا : مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا کہ حضرت عمر نے فرمایا : میں نہیں جانتا کہ ان کے یعنی مجوس کے معاملہ میں کیا کروں ؟ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا : میں شہادت دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے یہ فرماتے خود سنا : ” ان کے ساتھ اہل کتاب کا جیسا طریقہ اختیار کرو “۔ امام شافعی نے کہا : ہم سے سفیان نے بوساطت سعید بن مرزبان بروایت نصر بن عاصم بیان کیا کہ فروہ بن نوفل نے کہا : مجوسیوں سے جزیہ کس بنیاد پر لیا جاتا ہے ‘ یہ تو اہل کتاب نہیں ہیں۔ یہ سن کر مستورد (غصہ میں) کھڑے ہوگئے اور فروہ کا گریبان پکڑ لیا اور کہا : دشمن خدا ‘ کیا تو ابوبکر اور عمر اور امیر المؤمنین یعنی علی بن ابی طالب پر طعن کر رہا ہے ؟ ان حضرات نے تو مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔ اس کے بعد مستورد قصر خلافت میں گئے اور اندر سے حضرت علی برآمد ہوئے اور فرمایا : ہائیں ! میں سب سے زیادہ مجوسیوں کی حالت جانتا ہوں ‘ ان کے پاس دینی علم اور کتاب تھی جس کو پڑھتے پڑھاتے تھے۔ ایک بار ان کا بادشاہ نشہ کی حالت میں اپنی بیٹی یا ماں پر جا پڑا ‘ اس کی اس حرکت کو کسی نے دیکھ لیا اور جب بادشاہ کا نشہ اترا تو لوگوں نے اس کو کتابی سزا دینی چاہی۔ بادشاہ نے رعایا کو جمع کیا اور کہا : آدم کے دین سے بہتر کیا کوئی دین ہوسکتا ہے ؟ آدم تو اپنے بیٹوں کا اپنی بیٹیوں سے نکاح کرایا کرتے تھے۔ میں نے آدم کا دین اختیار کرلیا۔ تمہارے لئے بھی آدم کے مذہب سے گریز کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ سن کر لوگوں نے بادشاہ کے مسلک کو اختیار کرلیا اور جس نے مخالفت کی ‘ اس کو قتل کردیا۔ ایک رات میں ہی علماء کے سینوں سے علم زائل ہوچکا تھا۔ پس مجوسی اہل کتاب ہیں ‘ رسول اللہ ﷺ نے اور ابوبکر و عمر نے ان سے جزیہ لیا تھا۔ یہ حدیث ابن جوزی نے التحقیق میں ذکر کی ہے لیکن سعید بن مرزبان پر جرح بھی کی ہے۔ یحییٰ بن سعید نے کہا : سعید بن مرزبان کی روایت لینی میں جائز نہیں سمجھتا۔ یحییٰ (بن قطان) نے کہا : یہ شخص کچھ نہ تھا ‘ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔ قلاس کے نزدیک سعید متروک الحدیث تھا ‘ مگر ابو اسامہ نے اس کو ثقہ کہا ہے اور ابو زرعہ کا قول ہے کہ سعید صدوق تھا مگر مدلس۔ میں کہتا ہوں : امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں بروایت سفیان بن عیینہ بوساطت نضر بن عاصم لیثی لکھا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر نے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا اور میں (تم) سب لوگوں سے مجوسیوں کی حالت سے زیادہ واقف ہوں۔ یہ لوگ اہل کتاب تھے ‘ کتاب الٰہی پڑھتے تھے ‘ علم (شریعت) کی تعلیم دیتے تھے لیکن ان کے سینوں سے علم (الٰہی) نکال لیا گیا۔ امام ابو یوسف نے نصر بن خلیفہ کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ فروہ بن نوفل اشجعی نے کہا : یہ بات بہت سخت ہے کہ مجوسیوں سے خراج لیا جاتا ہے باوجودیکہ وہ اہل کتاب نہیں ہیں۔ یہ بات سن کر مستورد بن احنف نے کھڑے ہو کر کہا : تو نے رسول اللہ ﷺ پر نکتہ چینی کی ‘ فوراً توبہ کرو ورنہ میں تجھے قتل کر دوں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے تو ہجر کے رہنے والے مجوسیوں سے خراج لیا تھا۔ آخر دونوں اس جھگڑے کو حضرت علی کی خدمت میں لے گئے۔ حضرت علی نے فرمایا : میں مجوسیوں کے متعلق ایک بات بیان کرتے ہوں جس کو تم دونوں پسند کرو گے۔ مجوسی ایک کتابی امت تھی ‘ ان کے پاس (ا اللہ کی) ایک کتاب تھی جس کو وہ پڑھتے تھے۔ ایک بار ان کے بادشاہ نے شراب پی اور نشہ میں اپنی بہن کا ہاتھ پکڑ کر بستی سے باہر لے گیا۔ پیچھے پیچھے چار آدمی ہو لئے۔ وہاں جا کر اس نے بہن سے قربت کی ‘ پیچھے جانے والے لوگ دیکھ رہے تھے۔ جب نشہ اترا تو بہن نے اس سے کہا : فلاں فلاں لوگوں کی نظروں کے سامنے تو نے ایسی حرکت کی ہے۔ بادشاہ نے کہا : مجھے کچھ معلوم نہیں۔ بہن نے کہا : اب تجھے قتل کردیا جائے گا ورنہ میری بات مان۔ بادشاہ نے کہا : میں ضرور مانوں گا۔ عورت نے کہا : اس فعل کو تو مذہبی مسئلہ بنا دے اور لوگوں سے کہہ دے کہ آدم کا مذہب یہی ہے ‘ حواء کی پیدائش آدم ہی سے ہوئی تھی (گویا حواء ‘ آدم کی بیٹی تھیں) لوگوں کو اسی مذہب کی دعوت دے۔ جو تیرا مذہب مان لے اس کو چھوڑ دے ‘ جو نہ مانے اس کو تلوار سے قتل کر دے۔ بادشاہ نے اس مشورہ پر عمل کیا ‘ مگر بادشاہ کا حکم کسی نے نہیں مانا اور شام تک لوگ قتل ہوتے رہے۔ عورت نے کہا : میں محسوس کرتی ہوں کہ لوگ قتل ہونے سے نہیں ڈرتے ‘ آئندہ تو ان کو جلانے کی دھمکی دے اور ایک جگہ آگ روشن کر دے۔ بادشاہ نے اس مشورہ پر عمل کیا اور لوگوں کو دہکتی آگ میں ڈال دینے کی دھمکی دی تو لوگ ڈر گئے اور بادشاہ کی بات مان لی۔ حضرت علی نے فرمایا : چونکہ مجوسی اہل کتاب تھے ‘ اسلئے رسول اللہ ﷺ نے ان سے خراج لے لیا اور چونکہ مشرک ہوگئے تھے ‘ اسلئے ان سے نکاح اور ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام قرار دے دیا۔ ابن جوزی نے التحقیق میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اہل فارس کا پیغمبر جب وفات پا گیا تو ابلیس نے ان کیلئے دستور مجوسیت لکھ دیا۔ جواب رسول اللہ ﷺ کے فرمان : مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب جیسا معاملہ کرو ‘ سے ثابت نہیں ہوتا کہ مجوسی اہل کتاب ہیں اور جو سلوک اہل کتاب سے کیا جاتا ہے ‘ وہی مجوسیوں سے بھی کیا جائے ‘ کیونکہ ان سے نکاح اور ان کے ہاتھ کا ذبیحہ تو باجماع امت حرام ہے۔ حدیث کا مطلب صرف اتنا ہے کہ اہل کتاب کی طرح مجوسیوں سے بھی جزیہ لیا جائے ‘ بلکہ حدیث سے تو ہمارے مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ مجوسیوں کے اسلاف اگرچہ اہل کتاب تھے اور اللہ کی کتاب پڑھتے پڑھاتے تھے مگر جب سے انہوں نے اللہ کا دین چھوڑ دیا اور کتاب اللہ پر عمل کرنا ترک کردیا تو علم ان کے سینوں سے اٹھا لیا گیا اور ابلیس نے دستور مجوسیت ان کیلئے بنا دیا ‘ اس وقت سے یہ اہل کتاب نہیں ہے ‘ اسی لئے علماء کا اتفاق ہے کہ مجوسی اہل کتاب نہیں ہیں۔ ہاں امام شافعی کا قول ایک روایت میں آیا ہے کہ یہ اہل کتاب ہیں ‘ لیکن دوسری روایت میں امام شافعی کا قول بھی جمہور کے قول کے موافق آیا ہے کہ یہ اہل کتاب نہیں ہیں۔ میں کہتا ہوں : اگر مجوسیوں کے اسلاف کا اہل کتاب ہونا ان مجوسیوں کے اہل کتاب قرار دینے کیلئے کافی ہے تو ہمارے زمانہ کے یہ ہندو بت پرست بھی اہل کتاب ہوجائیں گے۔ ان کے پاس بھی وید نام کی ایک کتاب ہے جس کے چار حصے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ خدائی کتاب ہے۔ پھر ان کے اکثر اصول بھی شرعی اصول کے موافق ہیں اور جن اصولوں میں اختلاف ہے ‘ وہ شیطانی آمیزش کا نتیجہ ہیں۔ جس طرح شیطانی تفرقہ اندازی سے مسلمانوں کی ایک جماعت پھٹ کر تہتر فرقے بن گئی۔ ہندوؤں کے اہل کتاب ہونے کی تائید قرآن سے بھی ہو رہی ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : وَاِن مِّن اُمَّۃٍ الاَّ خَلاَفِیْھَا نَذِیْرٌ ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر ضرور گذرا ہے۔ مجوسیوں سے تو ہندو اہل کتاب کہلانے کے زیادہ مستحق ہیں۔ مجوسیوں کے بادشاہ نے تو نشہ سے بدمست ہو کر اپنی بہن سے زنا کیا اور اپنے دین و کتاب کو چھوڑ دیا اور دین آدم کا مدعی بن بیٹھا۔ مگر ہندوؤں نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی ‘ البتہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر ہوگئے۔ مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ چوتھے وید میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی بشارت مذکور ہے جس کو پڑھ کر بعض ہندو مسلمان ہوگئے ہیں۔ وا اللہ اعلم امام شافعی قائل ہیں کہ بت پرستوں سے جزیہ نہ لیا جائے۔ اس کے ثبوت میں بعض شوافع آیت قاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃً (کافروں سے لڑؤ یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے) کو پیش کرتے ہیں۔ مگر اہل کتاب اور مجوسی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ‘ اہل کتاب کا استثناء تو خود قرآن میں موجود ہے اور مجوسیوں کا استثناء حدیث سے ثابت ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہجر کے رہنے والے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ آیت مذکورہ کے عموم سے مجوسی بالاجماع خارج ہیں۔ ان کی تخصیص کی وجہ حدیث مذکور بھی ہے اور ایک عقلی علت مخصصہ بھی ہے۔ عقلی وجہ تخصیص یہ ہے کہ وہ مشرک ہیں اور ظاہر ہے کہ بت پرست بھی انہی کی طرح مشرک ہیں ‘ لہٰذا بت پرستوں کو بھی مجوسیوں کے حکم میں ہونا چاہئے۔ رہی یہ بات کہ مجوسیوں کے اسلاف اہل کتاب تھے تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا (کیونکہ مشرکوں اور بت پرستوں کے اسلام بھی صحیح طور پر اہل کتاب تھے۔ اس کے علاوہ) یہ مجوسی تو بہرحال اپنے اسلاف کی کتاب کے حامل اور عامل نہیں) ۔ پھر (مجوسیوں کی طرح) بت پرستوں کو باندی غلام بنانا باتفاق علماء درست ہے ‘ لہٰذا مجوسیوں کی طرح ان پر جزیہ مقرر کرنا بھی درست ہونا چاہئے۔ غلامی ہو یا تقرر جزیہ ‘ دونوں صورتوں میں ذاتی (تصرفات کی) آزادی میں تو خلل پڑتا ہی ہے۔ غلام ‘ آقا کیلئے کماتا ہے اور اپنی کمائی سے خود اپنا خرچ بھی چلاتا ہے۔ جزیہ ادا کرنے والا بھی اپنی کمائی سے خود بھی کھاتا ہے اور جزیہ بھی ادا کرتا ہے۔ سلیمان بن بریدہ نے اپنے باپ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کو کسی لشکر یا فوجی دستہ کا امیر بنا کر بھیجتے تھے تو خصوصیت کے ساتھ اللہ سے ڈرنے اور ساتھ والے مسلمانوں سے بھلائی کرنے کی نصیحت فرماتے تھے ‘ پھر فرماتے تھے : اللہ کا نام لے کر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ جو اللہ کے منکر ہوں ‘ ان سے قتال کرنا ‘ لڑنا ‘ شکست نہ کھانا ‘ عہد شکنی نہ کرنا ‘ کسی کے ناک کان نہ کاٹنا ‘ کسی بچے کو قتل نہ کرنا۔ دشمن سے آمنا سامنا ہو تو سب سے پہلے اس کو تین باتوں کی دعوت دینا ‘ اگر وہ ان تین باتوں میں سے ایک بات کو بھی مان نہیں تو قبول کرلینا اور جنگ سے باز رہنا۔ اوّل ان کو اسلام کی دعوت دینا ‘ اگر مان لیں تو تم بھی مان لینا اور ان سے جنگ ترک کردینا ‘ پھر ان سے کہنا کہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر مدینہ کو چلے چلو ‘ وہاں رہنا۔ اگر تم ایسا کرلو گے تو دوسرے مہاجرین کی طرح ہوجاؤ گے۔ ان کا نفع تمہارا نفع اور ان کا ضرر تمہارا ضرر مانا جائے گا۔ اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کریں تو ان سے کہہ دینا کہ دوسرے بیرونی مؤمنوں کی فہرست میں ان کا شمار ہوگا۔ اعراب اہل اسلام پر جو حکم لاگو ہے ‘ وہی ان پر ہوگا۔ غنیمت اور فے کے مال میں بغیر جہاد میں شرکت کرنے کے ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ اگر وہ مسلمان ہونے سے انکار کردیں تو ان سے جزیہ طلب کرنا ‘ جزیہ دے دیں تو لے لینا اور ان سے جنگ ترک کردینا۔ آخر میں اگر وہ جزیہ ادا کرنے سے بھی انکار کردیں تو اللہ سے مدد کی درخواست کرنا اور ان سے قتال کرنا ‘ الحدیث۔ رواہ مسلم حضرت انس کی روایت کردہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب کتابی سے بھی جزیہ لینا جائز ہے۔ حضرت انس کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید کو اکیدر حاکم دومتہ الجندل کی طرف بھیجا ‘ حضرت خالد اس کو گرفتار کر لائے۔ رسول اللہ ﷺ نے جانی پناہ دے دی اور اداء جزیہ کی شرط پر اس سے صلح کرلی۔ رواہ ابو داؤد حضرت یزید بن رومان اور حضرت عبد اللہ بن صدیق اکبر کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اکیدر بن عبدالملک کندی شاہ دومتہ الجندل کی طرف حضرت خالد بن ولید کو بھیجا تھا۔ اس روایت میں ہے کہ اکیدر سے جزیہ کی شرط پر آپ نے صلح کرلی۔ رواہ ابو داؤد والبیہقی۔ حافظ نے لکھا ہے : اگر اکیدر کا کندی ہونا ثابت ہوجائے تو حکم جزیہ صرف عجم کے ساتھ مخصوص نہ رہے گا ‘ کیونکہ اکیدر کا عربی ہونا یقینی ہوگا (بنی کندہ عرب کا ایک قبیلہ تھا) اور جب یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ جزیہ کے ساتھ نہ اہل کتاب کی خصوصیت ہے نہ عجم کی ‘ تو امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا مسلک صحیح قرار پائے گا۔ دونوں میں صرف اتنا فرق ہوگا کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک عرب کے بت پرستوں سے نہ جزیہ لینا درست ہوگا نہ ان کو غلام بنانا (کیونکہ اکیدر عیسائی یا مجوسی تھا) عبدالرزاق نے بوساطت معمر زہری کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (جزیہ پر) بت پرستوں سے صلح کرلی مگر عرب بت پرستوں سے (جزیہ نہیں لیا اور جزیہ لے کر صلح نہیں کی) ۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ عربوں میں ان کے سامنے پلے بڑھے تھے اور قرآن بھی عرب کی زبان میں ہی اترا تھا ‘ اسلئے عرب کیلئے معجزہ کا ظہور ناقابل انکار تھا۔ اسی وجہ سے عرب (کے بت پرستوں) سے سوائے اسلام کے اور کچھ قبول نہیں کیا جاسکتا ورنہ قتال کیا جائے گا۔ یہی حالت مرتدوں کی ہے ‘ مرتد ہدایت پانے اور اسلام کی خوبیوں سے واقف ہونے کے بعد انکار کرتا اور اسلام کو ترک کرتا ہے (اس کے پاس اسلام سے ناواقفیت کا کوئی عذر نہیں ہوتا ‘ اسی لئے) اسلام یا قتال کے سوا اس کی طرف سے جزیہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔ امام محمد بن حسن نے بوساطت مقسم حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عرب کے مشرکوں سے سوائے اسلام یا جنگ کے اور کچھ قبول نہ کیا جائے۔ اگر عرب کے بت پرستوں یا مرتدوں پر دست رسی ہوجائے تو ان کے بیوی بچوں کو باندی غلام بنا لیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے بنی اوطاس اور ہوازن کے اہل و عیال کو باندی غلام بنایا تھا۔ یہ لوگ عرب اور مشرک تھے ‘ اسی طرح بنی مصطفیٰ کے اہل و عیال کو باندی غلام بنایا تھا۔ بنی حنیفہ جب مرتد ہوگئے تو حضرت ابوبکر نے ان کے بیوی بچوں کو گرفتار کرا کے باندی غلام بنا کے مجاہدوں کو تقسیم کردیا۔ حضرت محمد بن حضرت علی بن ابی طالب کی ماں اور حضرت زید بن حضرت عبد اللہ بن حضرت عمر کی والدہ بھی انہی میں سے تھیں۔ گرفتار کرنے اور مملوک بنانے کے بعد مرتدوں کے بیوی بچوں کو مسلمان ہونے پر مجبور کیا جائے گا ‘ بت پرستوں کے بیوی بچوں کو اسلام پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ امام شافعی کے نزدیک عرب کے مشرکوں کے بیوی بچوں کو بھی گرفتار کر کے مملوک بنایا جاسکتا ہے۔ امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ اکیدر والی حدیث سے اگرچہ ثابت ہو رہا ہے کہ عرب سے بھی جزیہ لیا جائے خواہ وہ اہل کتاب ہو یا مشرک ‘ لیکن دوسری احادیث میں آیا ہے کہ جزیرۂ عرب سے یہودیوں اور عیسائیوں کو نکال دیا جائے اور وہاں مسلمان کے سوا کسی کو نہ چھوڑا جائے۔ ان احادیث سے اکیدر والی حدیث کا حکم منسوخ ہوگیا کیونکہ قبول جزیہ تو عرب کے اندر سکونت رکھنے پر مبنی ہے۔ جب غیرمسلم کی سکونت کی ہی اجازت نہ رہی تو پھر عرب مشرک یا کتابی سے جزیہ لینے کا معنی ہی کیا ہوسکتا ہے۔ حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین باتوں کی نصیحت فرمائی تھی ‘ فرمایا تھا : مشرکوں کو جزیرۂ عرب سے نکال دو اور (غیرملکی کافروں کے) وفد کو ویسی ہی اجازت (داخلہ) دو جیسی میں دیتا ہوں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : تیسری بات بیان کرنے سے حضور ﷺ خاموش رہے ‘ یا میں بھول گیا۔ متفق علیہ حضرت جابر بن عبد اللہ راوی ہیں کہ حضرت عمر نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ‘ آپ فرما رہے تھے : میں یہود و نصاریٰ کو جزیرۂ عرب سے ضرور نکال دوں گا یہاں تک کہ مسلمان کے سوا کسی کو یہاں نہیں چھوڑوں گا۔ رواہ مسلم امام مالک نے موطأ میں زہری کی روایت سے مرسلاً اور صالح بن اخضر نے زہری کی وساطت سے حضرت ابوہریرہ کا بیان موصولاً نقل کیا ہے کہ جزیرۂ عرب میں دو مذہب اکٹھے نہ ہوں گے۔ مؤخر الذکر روایت اسحاق نے اپنی مسند میں نقل کی ہے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو آخری کلام کیا ‘ وہ یہ تھا کہ حضور ﷺ نے فرمایا : یہودیوں کو حجاز سے اور اہل نجران (اہل یمن) کو جزیرۂ عرب سے نکال دو ۔ یہ حدیث امام احمد اور بیہقی نے نقل کی ہے۔ مسئلہ : مقدار جزیہ کا بیان امام ابوحنیفہ کے نزدیک مقدار جزیہ کی تعیین باہم صلح اور رضامندی سے ہونی چاہئے۔ جتنی مقدار بھی باہم طے ہوجائے ‘ کوئی حدبندی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے (یمن کے) نجرانیوں سے دو ہزار کپڑے کے جوڑوں کی وصولیابی کی شرط پر صلح کی تھی۔ ابوداؤد نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجران سے (کپڑے کے) دو ہزار جوڑوں کی شرط پر صلح کی تھی ‘ نصف کی وصولیابی ماہ صفر میں اور نصف کی وصولیابی ماہ رجب میں (قرار پائی تھی) امام ابو یوسف نے کتاب الاموال میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجران کو ایک تحریر دے دی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ دو ہزار جوڑے دیں گے ‘ ہر جوڑے کی قیمت ایک اوقیہ ہوگی۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ کتاب الاموال کی روایت کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ولوجی نے جو ہر جوڑے کی قیمت پچاس ہزار درہم ضروری قرار دی ہے ‘ وہ غلط ہے کیونکہ ایک اوقیہ کے چالیس درہم ہوتے ہیں۔ ایک جوڑا دو کپڑوں کا ہوتا تھا ‘ تہبند اور چادر۔ ذات اور زمین دونوں کا ٹیکس کپڑوں کی شکل میں وصول کیا جاتا تھا۔ امام ابویوسف نے نجران کے غیرمسلموں کی ذات اور زمینوں پر دو ہزار جوڑوں کی تقسیم مانی ہے۔ زمین کا جزیہ زمین پر قائم رہے گا خواہ وہ زمین کسی ذمی یا تغلبی (عیسائی) یا مسلمان کے ہاتھ فروخت ہی کردی گئی ہو (مگر ٹیکس زمین پر قائم رہے گا) یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں کی زمینوں پر بھی زمین کا جزیہ عائد ہوگا ‘ البتہ پرسنل ٹیکس (شخصی جزیہ) عورتوں اور بچوں پر عائد نہ ہوگا۔ ابی ابن شیبہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر نے بنی تغلب کے عیسائیوں سے اس شرط پر صلح کی تھی کہ جتنا مال ایک مسلمان سے بطور وجوب لیا جائے گا ‘ اس سے دوگنا عیسائی سے لیا جائے گا۔ اگر مسلمانوں کا امیر قوت اور زور کے ساتھ غالب آیا ہو (بطور مصالحت غیر مسلم ‘ مسلمانوں کے زیرسایہ نہ آئے ہوں) تو ہر مالدار امیر آدمی سے چار درہم ماہانہ کے حساب سے سالانہ اڑتالیس درہم اور متوسط سے دو درہم ماہانہ کے حساب سے سالانہ چوبیس درہم اور غریب برسرروزگار سے اگر وہ سال کے زیادہ حصہ میں تندرست رہتا ہو ‘ ایک درہم ماہانہ کے حساب سے سالانہ بارہ درہم لئے جائیں۔ امام ابو حنفیہ کا یہی قول ہے۔ امام مالک کا مشہور قول یہ ہے کہ امیر غریب کا کوئی فرق نہیں ‘ ہر شخص سے چار دینار یا چالیس درہم سالانہ لئے جائیں۔ امام شافعی کے نزدیک ہر غریب امیر سے سالانہ ایک دینار لیا جائے۔ امام احمد کے چار اقوال چار مختلف روایات میں آئے ہیں : پہلی روایت میں امام احمد کا قول امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق آیا ہے۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ مقدار کی تعیین امیر اسلام کی رائے پر ہے ‘ معین مقدار کوئی نہیں۔ ثوری کا یہی قول ہے۔ تیسری روایت میں آیا ہے کہ کم سے کم ایک دینار سالانہ لیا جائے ‘ زیادہ کی حدبندی نہیں ہے۔ چوتھی روایت میں آیا ہے کہ صرف اہل یمن کیلئے ایک دینار فی کس سالانہ مخصوص تھا (یہ حکم عمومی ہر ذمی کیلئے نہیں ہے) حدیث جو اہل یمن کے متعلق آئی ہے ‘ اسی کی تائید کرتی ہے۔ حضرت معاذ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب مجھے (عامل بنا کر) یمن کو بھیجا تو حکم دیا کہ ہر بالغ سے ایک دینار یا ایک دینار قیمت کے معافر یمنی کپڑے لئے جائیں۔ رواہ ابو داؤد الترمذی والنسائی والدارقطنی وابن حبان والحاکم۔ شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ ابو داؤد نے اس کو حدیث منکر قرار دیا ہے اور صراحت کی ہے کہ مجھے یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ امام احمد بھی اس حدیث کو منکر قرار دیتے تھے۔ بیہقی نے اس حدیث کے راویوں میں کچھ اختلاف نقل کیا ہے۔ کسی سند میں اعمش از ابو وائل ازمسروق از معاذ ہے ‘ کسی میں اعمش از ابو وائل از مسروق ہے (گویا یہ بیان مسروق کا ہے ‘ حضرت معاذ کا نہیں ہے) ۔ ابن حزم نے اس کو منقطع کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ مسروق نے معاذ کو نہیں پایا۔ حافظ ابن حجر نے کہا : ابن حزم کے اس قول میں کلام ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حَسَنْ کہا ہے۔ ترمذی نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ بعض علماء کے نزدیک اس حدیث کی روایت مرسل ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ امام ابوحنیفہ کے مسلک کی تائید حضرت عمر ‘ حضرت عثمان اور حضرت علی کے قول و عمل سے بھی ہوتی ہے۔ اصحاب سنن نے اپنی کتابوں میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی روایت سے حکم کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عثمان بن حینف کو سواد (عراق بھیجا) دونوں حضرات نے جا کر وہاں کی زمین کا سروے کیا اور خراج مقرر کیا اور لوگوں کے تین درجات مقر کئے (اعلیٰ مالدار ‘ متوسط مالدار ‘ نادار برسرروزگار) پھر واپس آکر اپنی کارگذاری کی اطلاع دے دی۔ حضرت عمر کے بعد حضرت عثمان نے بھی اسی پر عمل کیا۔ ابن ابی شیبہ نے بوساطت علی بن مسہر شیبانی بروایت ابن عون محمد بن عبد اللہ ثقفی بیان کیا کہ حضرت عمر نے پرسنل ٹیکس بڑے مالداروں پر فی کس 48 ہزار درہم سالانہ اور درمیانی طبقہ کے لوگوں پر فی کس 24 ہزار درہم سالانہ اور ناداروں پر فی کس 12 درہم سالانہ مقرر کیا۔ یہ حدیث مرسل ہے۔ ابن زنجویہ نے کتاب الاموال میں از مندل از شیبانی از ابن عون از مغیرہ بن شعبہ مذکورہ بالا حدیث لکھی ہے۔ ابن سعد نے طبقات میں ایک اور سند سے بروایت نضرہ لکھا ہے کہ حضرت عمر نے مفتوحہ ممالک میں ذمیوں پر جزیہ لگایا ‘ مالداروں پر اتنا الخ۔ ایک دوسرے سلسلہ میں حارثہ بن مضر کا بیان آیا ہے کہ حضرت عمر نے عثمان بن حنیف کو بھیجا ‘ انہوں نے فی کس 48 اور 24 اور 12 درہم جزیہ قائم کیا۔ یہ واقعہ صحابہ کی موجودگی کا ہے ‘ کسی نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی ‘ اسلئے یہ تجویز اجماع کے قائم مقام ہوگئی۔ امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں بروایت سری بن اسماعیل ‘ عامر شعبی کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے عراق کی پیمائش کرائی ‘ 360 کروڑ جریب زمین پیمائش سے نکلی۔ اناج کاری کے جریب پر ایک درہم اور ایک قفیز غلہ اور انگوروں کے ایک جریب پر دس درہم اور کھجوروں کے ایک جریب پر پانچ درہم ٹیکس مقرر کئے اور شخصی جزیہ فی کس 12 اور 24 اور 48 درہم سالانہ طے کئے۔ شعبی نے کہا : مجھ سے سعید بن ابی عروبہ نے بروایت قتادہ ‘ ابن مجلز کا بیان نقل کیا کہ حضرت عمر نے نماز کی امامت اور فوج کی قیادت حضرت عمار بن یاسر کے اور محکمۂ قضاء و خزانہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے اور زمین کا سروے حضرت عثمان بن حنیف سے متعلق کر کے بھیجا اور ان حضرات کے راشن کیلئے ایک بکری روزانہ مقرر کردی۔ آدھی بکری اور شکمی آلات حضرت عمار کیلئے ‘ چوتھائی بکری حضرت ابن مسعود کیلئے اور چوتھائی بکری حضرت عثمان بن حنیف کیلئے۔ اور فرمایا : میں اپنی ذات کو اور آپ لوگوں کو اس مال کے معاملہ میں یتیم کے سرپرست کی طرح خیال کرتا ہوں۔ اللہ نے فرما دیا ہے کہ جو مالدار ہو ‘ وہ (یتیم کے مال سے) بچا رہے اور جو نادار ہو ‘ وہ (اپنے زیرنگرانی یتیم کے مال میں سے) دستور کے مطابق کھا سکتا ہے۔ جس زمین سے روزانہ ایک بکری لے لی جائے ‘ خدا کی قسم ! میرے خیال میں وہاں بہت جلد نقصان (یعنی بکریوں کی کمی) ہوسکتا ہے۔ حضرت عثمان نے جا کر زمینوں کی پیمائش کی ‘ انگور والی ایک جریب زمین پر دس (درہم) کھجور والی جریب پر آٹھ ‘ گنے کی ایک جریب پر چھ ‘ گیہوں کی ایک جریب پر چار اور جو کی ایک جریب پر دو درہم (سالانہ) مقرر کئے اور شخصی ٹیکس بارہ درہم ‘ چوبیس درہم اور اڑتالیس درہم لاگو کیا اور عورتوں بچوں پر کوئی (شخصی ٹیکس) عائد نہیں کیا۔ سعید کا بیان ہے کہ میرے ایک ساتھی نے روایت میں اتنا اختلاف کیا ہے کہ کھجور کی جریب پر دس درہم اور انگور کی جریب پر آٹھ درہم ہونے کا ذکر کیا ہے۔ محمد بن اسحاق نے بروایت حارثہ بن مطرف بیان کیا کہ حضرت عمر نے سواد (عراق) کو مسلمانوں کیلئے تقسیم کرنے کا ارادہ کیا اور سواد (عراق) کی مردم شماری کرائی تو کافروں کی تعداد اتنی نکلی کہ ایک مسلمان کے مقابلہ میں دو دو ‘ تین تین کافر آئے ( گویا عراق کے دیہاتیوں کی تعداد مسلمانوں سے دوگنی ‘ تین گنی نکلی) یہ دیکھ کر صحابہ نے باہم مشورہ کیا۔ حضرت علی نے فرمایا : یہ کفار تو مسلمانوں کے اقتصادی مددگار ہوسکتے ہیں (اسلئے ان کی زمینیں نہ نکالی جائیں بلکہ سالانہ ٹیکس مقرر کردیا جائے) چناچہ حضرت عثمان بن حنیف کو بھیجا گیا اور عثمان نے جا کر (تین طبقات قائم کئے اور ( 48 اور 24 اور 12 درہم سالانہ مقرر کیے۔ حنفیہ نے حضرت معاذ والی حدیث کا یہ جواب دیا ہے کہ یمن کو فوجی غلبہ سے نہیں فتح کیا گیا بلکہ صلح سے وہاں تسلط قائم کیا گیا۔ اہل یمن سے مقدار جزیہ بھی مصالحت سے طے ہوئی ‘ پھر اہل یمن عموماً محتاج تھے ‘ اسلئے مقدار جزیہ ان پر وہ عائد کی گئی جو مفلسوں پر لاگوہوتی ہے۔ اس کی تائید بخاری کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ ابونجیح نے بیان کیا : میں نے مجاہد سے پوچھا : شام والوں پر تو فی کس چار دینار مقرر کئے گئے اور یمن والوں پر فی کس ایک دینار ‘ اس کی کیا وجہ ہے ؟ مجاہد نے جواب دیا : یہ سہولت کے پیش نظر کیا گیا (اہل شام مالدار تھے اور اہل یمن نادار) سفیان ثوری اور امام احمد کے قول کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ کو تو ایک دینار (فی کس) وصول کرنے کا حکم دیا اور اور نجران کے عیسائیوں سے کپڑوں کے دو ہزار جوڑوں پر مصالحت کرلی اور حضرت عمر نے ذمیوں کے تین درجات قائم کئے ‘ جیسا کہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اور بنی تغلب سے اتنا جزیہ وصول کرنے پر صلح کی جو مسلمانوں سے وصول کئے جانے والے مال سے دو گنا تھا۔ یہ اختلاف تجویز دلالت کر رہا ہے کہ جزیہ کی کوئی خاص حد شرعاً مقرر نہیں ‘ امام مسلمین کی رائے پر اس کی کمی بیشی موقوف ہے۔ مسئلہ : امام ابوحنیفہ ‘ امام مالک اور امام احمد کے نزدیک بےروزگار مفلس سے جزیہ نہ لیا جائے۔ امام شافعی کا مسلک ایک روایت میں تو یہی ہے ‘ دوسری روایت میں اس کے خلاف آیا ہے۔ مفلس بےروزگار پر بھی جزیہ واجب ہے لیکن ادا کا مطالبہ اس وقت کیا جائے گا جب وہ فراخ دست ہوجائے گا۔ تیسری روایت میں آیا ہے کہ جب ایک سال پورا ہونے پر بھی نادار بےروزگار فراخ دست نہ ہو سکے تو اس کا الحاق دارالحرب سے کردیا جائے (گویا وہ ذمی نہیں رہا) امام شافعی کی دلیل یہ ہے کہ حضرت معاذ سے رسول اللہ ﷺ نے بلاشرط فرما دیا تھا کہ ہر بالغ سے وصول کرنا۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف نے بےروزگار نادار پر جزیہ مقرر نہیں کیا۔ ابن زنجویہ نے کتاب الاموال میں لکھا ہے کہ ہشیم بن عدی نے بروایت عمر بن نافع بحوالۂ ابوبکر صلہ بن زفرعینی بیان کیا ہے کہ حضرت عمر نے ایک ذمی بوڑھے کو بھیک مانگتے دیکھا تو فرمایا : کیا بات ہے ؟ بوڑھے نے کہا : میرے پاس مال نہیں ہے اور مجھ سے جزیہ لیا جاتا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا : ہم نے تیرے ساتھ انصاف نہیں کیا کہ تیری جوانی (کی کمائی) کھائی ‘ پھر (بڑھاپے میں بھی) تجھ سے جزیہ لے رہے ہیں۔ پھر آپ نے اپنے کارندوں کو لکھ بھیجا کہ بڑے بوڑھے سے جزیہ نہ لیا کرو۔ بعض سلسلۂ روایات میں اتنا زائد ہے کہ کمائی کرنے والے نادار پر بارہ درہم ہیں۔ رواہ البیہقی۔ ابو یوسف نے بروایت عمرو بن نافع بوساطت ابوبکر بیان کیا کہ حضرت عمر کسی شخص کے دروازے کی طرف سے گزرے ‘ وہاں ایک بوڑھا نابینا سائل (بھیک) مانگ رہا تھا۔ باقی حدیث حسب سابق ہے ‘ اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ حضرت عمر نے اس بوڑھے اور اس جیسے دوسرے لوگوں سے جزیہ لینے کا حکم ساقط کردیا۔ ابوبکر کا بیان ہے : میں اس وقت موجود تھا اور میں نے اس بوڑھے کو دیکھا بھی تھا۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top