Tafseer-e-Majidi - Ibrahim : 31
قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خِلٰلٌ
قُلْ : کہ دیں لِّعِبَادِيَ : میرے بندوں سے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْا : ایمان لائے يُقِيْمُوا : قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُنْفِقُوْا : اور خرچ کریں مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : چھپا کر وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر مِّنْ قَبْلِ : اس سے قبل اَنْ يَّاْتِيَ : کہ آجائے يَوْمٌ : وہ دن لَّا بَيْعٌ : نہ خریدو فروخت فِيْهِ : اس میں وَلَا خِلٰلٌ : اور نہ دوستی
آپ میرے ان بندوں سے کہہ دیجیے جو ایمان رکھتے ہیں کہ نماز کی پابندی رکھیں اور ہم نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ وعلانیہ خرچ کرتے رہیں پیشتر اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید وفروخت ہوگی اور نہ دوستی (ہی) ،54۔
54۔ (بلکہ خالص اور کامل انصاف ہی کا سکہ چلے گا) (آیت) ” لعبادی “۔ عبادی میں مومن بندوں کی اضافت حق تعالیٰ کا اپنی ذات پاک کی طرف کرنا ان کے غایت اکرام وشرف کیلئے ہے۔ خصھم بالاضافۃ تنویھا لھم (بیضاوی) (آیت) ” وینفقوا “۔ یعنی نیک اور مطابق شریعت کاموں میں خرچ کرتے رہیں۔ حکم انفاق قرآن مجید میں جہاں جہاں بھی آیا ہے ظاہر ہے کہ مراد مطلق خرچ کرنا نہیں، بلکہ امور خیر میں خرچ کرنا ہے۔ (آیت) ” مما رزقنھم “۔ رزق کو حق تعالیٰ نے اپنی جانب منسوب کرکے اوپر بھی اشارہ کردیا کہ رزق حلال ہونی چاہیے، حرام کمائی کا گزر ہی نہ ہو۔ (آیت) ” سرا وعلانیۃ “۔ پوشیدہ وعلانیہ جہاں جیسی بھی مصلحت شرعی نظر آئے۔ (آیت) ” لابیع فیہ “۔ یعنی یہ نہ ہوگا کہ اس وقت کچھ قیمت دے دلا کر نجات حاصل کی جاسکے۔ بعض جاہلی عقاید پر ضرب (آیت) ” ولا خلل “۔ یعنی یہ نہ ہوگا کہ کسی کی دوستی اور مروت اور رورعایت سے کام نکل جائے۔ یہود وغیرہ کا عقیدہ تھا کہ پیغمبروں اور مقبولان الہی کی عزیز داری کام آجائے گی، جس دوستی اور تعلق سے نفع کی نفی مطلق بیان کی گئی ہے وہ وہ دوستی اور تعلق ہے جو بغیر ایمان کے ہو ،
Top