Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 88
وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ١ۙ وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب بَدَّلْنَآ : ہم بدلتے ہیں اٰيَةً : کوئی حکم مَّكَانَ : جگہ اٰيَةٍ : دوسرا حکم وَّاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : اس کو جو يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تو مُفْتَرٍ : تم گھڑ لیتے ہو بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور جب ہم کسی آیت کو دوسری آیت کی جگہ بھیج دیتے ہیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے جو کچھ وہ بھیجتا رہتا ہے تو یہ لوگ کہنے لگتے ہیں کہ تم تو نرے گڑھ لینے والے ہو،161۔ نہیں بلکہ ان میں سے زیادہ تر بےعلم ہیں،162۔
161۔ (اے مدعی نبوت و رسالت) (آیت) ” واذا۔۔۔ ایۃ “۔ مثلا کسی آیت کے حکم کی تعمیم میں تخصیص پیدا کردیتے ہیں، یا اس کے برعکس تخصیص میں تعمیم، نسخ آیات پر مفصل حاشیہ سورة بقرہ (پ 1) میں (آیت) ” ماننسخ من ایۃ اوننسھا “ کے تحت میں گزر چکا (آیت) ” واللہ اعلم بما ینزل “۔ یعنی یہ تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ مکلفین ومخاطبین کے اعتبار سے، کون ساحکم، کس وقت مناسب وپر مصلحت ہے۔ (آیت) ” قالوا انما انت مفتر “۔ یہ بکواس معاندین رسول اللہ ﷺ کی ہوتی تھی، جب کبھی بھی وہ کوئی ایسا حکم سنتے جو ان کے خیال میں کسی سابق حکم کے معارض ہوتا، تو چٹ یہی کہنے لگتے، کہ یہ کیا ؟ یہ تو تم اپنے قصد و ارادہ سے، اور اپنی مصلحت وقت دیکھ کر احکام میں ادل بدل کرتے رہتے ہو۔ گویا تبدیلی کا انتساب ایک انسان کی جانب تو ہوسکتا تھا، لیکن حق تعالیٰ کی طرف سے اس کے ہونے کا کوئی امکان نہ تھا ! اتنی موٹی سی بات جس طرح ان جاہلین قدیم کی سمجھ میں نہیں آئی تھی، بہت سے جاہلین جدید کی بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ اور یہ لوگ بھی محض ان ” ترمیمات “ کے وق قوع سے نتیجہ یہ نکال رہے ہیں کہ قرآن خدا کا نہیں، انسان کا کلام ہے ! 162۔ (کہ اپنے غایت جہل ونافہمی سے احکام کے ارتقاء وترتیب کو دلیل سمجھ رہے تھے افترا کی ! ) یہ ” ارتقاء “ مخاطبین کے فہم و استعداد کی نسبت سے کہا گیا۔
Top